امریکی نائب سفیر نے دلیل دی کہ صومالی لینڈ کیلئے اسرائیلی شناخت پر غم و غصے کا اظہار نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ رواں سال کے اوائل میں بھی کئی ممالک نے یکطرفہ طور پر ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا۔
EPAPER
Updated: December 30, 2025, 6:02 PM IST | New York
امریکی نائب سفیر نے دلیل دی کہ صومالی لینڈ کیلئے اسرائیلی شناخت پر غم و غصے کا اظہار نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ رواں سال کے اوائل میں بھی کئی ممالک نے یکطرفہ طور پر ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا۔
اقوامِ متحدہ (یو این) میں امریکہ کو اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے صومالی لینڈ کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے اسرائیلی فیصلے کا دفاع کیا اور اس کا واضح موازنہ فلسطین کو مختلف ممالک کی جانب سے تسلیم کئے جانے کے فیصلے سے کردیا۔ پیر کے دن یو این کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی نائب سفیر ٹیمی بروس نے کہا کہ اسرائیل کو وہی سفارتی حقوق حاصل ہیں جو کسی بھی خود مختار ریاست کو ہوتے ہیں۔ انہوں نے دلیل دی کہ صومالی لینڈ کیلئے اسرائیلی شناخت پر غم و غصے کا اظہار نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ رواں سال کے اوائل میں بھی کئی ممالک نے یکطرفہ طور پر ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا۔
بروس نے سلامتی کونسل پر ”دوہرے معیار“ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ”اس سال کے شروع میں اس کونسل کے ممبران سمیت کئی ممالک نے ایک غیر موجود فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کیا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ فی الحال صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کی حمایت نہیں کرتے۔
یہ بھی پڑھئے: پوتن کی رہائش گاہ پر حملے کا دعویٰ، ٹرمپ کا اظہارِ تشویش، یوکرین کی تردید
اجلاس میں موجود متعدد سفارت کاروں نے واشنگٹن کے اس موازنے کو مسترد کر دیا۔ سلووینیا کے سفیر سیموئیل زبوگر نے بین الاقوامی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین ”غیر قانونی طور پر قبضہ کیا گیا علاقہ“ ہے جبکہ صومالی لینڈ یو این کے ایک تسلیم شدہ رکن ملک کا حصہ ہے۔ صومالیہ کے مندوب ابوبکر عثمان نے اسرائیلی اقدام کو صومالی سرزمین کی تقسیم کی حوصلہ افزائی کیلئے ”جارحانہ عمل“ قرار دیا۔ ترکی، پاکستان، چین، روس اور متعدد یورپی ممالک نے بھی صومالیہ کی وحدت کی حمایت کا اعادہ کیا اور خبردار کیا کہ یکطرفہ شناخت سے افریقہ میں عدم استحکام کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ پاکستانی وفد نے تجویز دی کہ یہ اقدام خاص طور پر ان اسرائیلی بیانات کے تناظر میں تشویشناک ہے جن میں غزہ سے بے دخل فلسطینیوں کیلئے ممکنہ ٹھکانوں کا ذکر کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ بروس کے یہ تبصرے اس وقت سامنے آئے جب اسرائیل صومالی لینڈ کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ صومالی لینڈ نے ۱۹۹۱ء میں صومالیہ سے علیحدگی اختیار کر کے خود مختاری کا اعلان کیا تھا لیکن تاحال یو این اور افریقی یونین اسے تسلیم نہیں کرتے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل کی جانب سے کئے گئے اس اعلان نے افریقہ، عرب دنیا اور یورپی ممالک کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ کئی ممالک نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام صومالیہ کی خودمختاری اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: صومالیہ ایک ہے اور ایک ہی رہے گا: نیتن یاہو کے خلاف ملک بھر میں شہریوں کا احتجاج
یو این کا صومالیہ کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا اعادہ
اجلاس کے دوران یو این کے ایک سینیئر اہلکار نے عالمی ادارے کے دیرینہ موقف پر زور دیا۔ سیاست و امن سازی کے امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل خالد خیاری نے سلامتی کونسل کو یاد دلایا کہ اس نے ”بارہا“ صومالیہ کی خودمختاری، اتحاد اور علاقائی سالمیت کی توثیق کی ہے، جس کی حالیہ مثال دسمبر ۲۰۲۵ء میں منظور کی گئی سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۸۰۹ ہے۔ خالد خیاری نے صومالیہ اور صومالی لینڈ پر زور دیا کہ وہ پرامن مذاکرات کا راستہ اختیار کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جو تناؤ میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔
صومالی سفیر نے A3+ گروپ کی جانب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے دی گئی شناخت قانونی طور پر کوئی اثر رکھنے کی ”اہلیت نہیں رکھتی۔“ انہوں نے خبردار کیا کہ صومالی یا فلسطینی مستقبل کو سودے بازی کے مہرے کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔ برطانیہ، چین، روس، ڈنمارک اور یونان نے بھی اسی موقف کی تائید کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ صومالی لینڈ کو تسلیم نہیں کرتے اور صومالیہ کی علاقائی سالمیت کیلئے پرعزم ہیں۔ چینی مندوب نے خبردار کیا کہ اس فیصلے سے خطے میں پہلے ہی تناؤ بڑھ چکا ہے، جبکہ روس نے متنبہ کیا کہ اس سے الشباب کے خلاف جاری کوششیں پیچیدہ ہو سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: تھائی لینڈ کمبوڈیا جنگ بندی: ٹرمپ نے کہا ’یو ایس‘ ہی اصل ’یو این‘ ہے
اسرائیل کے نمائندے جوناتھن ملر نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے اسے غیر معاندانہ قرار دیا اور اسے استحکام کے ایک موقع کے طور پر پیش کیا، لیکن مخالفت بدستور شدید رہی۔ خلیجِ عدن کے ساتھ تزویراتی محلِ وقوع پر واقع صومالی لینڈ طویل عرصے سے بین الاقوامی شناخت کا خواہاں رہا ہے، تاہم پیر کے مباحثے نے اقوامِ متحدہ میں ایک وسیع اتفاقِ رائے کو اجاگر کیا کہ اسرائیلی فیصلے اور واشنگٹن کے دفاع کے باوجود، بین الاقوامی برادری بین الاقوامی قانون کے تحت صومالی لینڈ کو صومالیہ کا ہی اٹوٹ حصہ تصور کرتی ہے۔