چیف جسٹس آف انڈیا کی طرف جوتا اُچھالنے کا واقعہ جتنا سنگین محسوس ہوتا ہے اُس سے زیادہ ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) جسٹس بی آر گوائی۔ تصویر: آئی این این
چیف جسٹس آف انڈیا کی طرف جوتا اُچھالنے کا واقعہ جتنا سنگین محسوس ہوتا ہے اُس سے زیادہ ہے۔ اس لئے کہ یہ ایک شخص سے زیادہ ایک عہدہ کی، عہدہ سے زیادہ سب سے بڑی عدالت کی اور عدالت سے زیادہ اُس آئین کی توہین ہے جس کی بالادستی قائم رکھنے کیلئے عدالت قائم کی گئی، عدالت میں عہدے تفویض کئے گئے اور عہدوں پر اُن افراد کو مامور کیا گیا جنہوں نے علم ِ قانون ا ور بصیرت ِ قانون کے معاملے میں خود کو ثابت کیا۔ یہ چیف جسٹس آف انڈیا ہی کی نہیں سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور نچلی و ذیلی عدالتوں کے تمام فاضل ججوں کی بھی توہین ہے۔ یہ اُن وکلاء کی بھی توہین ہے جو فاضل ججوں کے فیصلوں کو حرف آخر سمجھتےہیں اور اگر کسی فیصلے سے متفق نہ ہوں تب بھی سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ یہ ملک کے اُن کروڑوں شہریوں کی بھی توہین ہے جو عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور دل و جان سے مانتے ہیں کہ آئین انسانی و شہری حقوق کا سب سے بڑا محافظ اور پورے ملک کیلئے رہنما دستاویز ہے۔ چیف جسٹس کی جانب جوتا اُچھالنے کا واقعہ محض ایک واقعہ نہیں، بیک وقت کئی واقعات کا مجموعہ ہے جسے پوری جزئیات کے ساتھ دیکھنا اور سمجھنا چاہئے۔ اس کی مذمت بھی اُتنی ہی شد ومد سے ہونی چاہئے جتنا اس کا حق ہے۔
اس واقعہ کا ایک اور زاویہ ہے۔ موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا، بی آر گوئی، ہندوستانی سماج کے ایسے طبقہ سے ہیں جو برسوں سے ملک کے طبقاتی نظام کی قیمت ادا کررہا ہے اور ظلم و جبر کی غضبناک چکی میں پس رہا ہے۔ اس طبقہ کے بہت کم افراد ملک کے بڑے عہدوں تک پہنچ پاتے ہیں۔ ہندوستانی عدلیہ کی اب تک کی تاریخ میں جسٹس کے جی بالا کرشنن (۲۰۰۷ء تا ۲۰۱۰ء) کے بعد جسٹس بی آر گوئی دوسرے دلت (اور پہلے بدھشٹ) ہیں جنہیں اس عہدۂ جلیلہ تک ترقی پانے کا موقع ملا۔ اس زاویئے سےدیکھئے تو یہ سوال لامحالہ ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا محترم چیف جسٹس بی آر گوئی کو اس لئے ہدف بنایا گیا یا بنانے کی کوشش کی گئی کہ وہ دلت سماج سے ہیں؟ ہم اس تاریخی حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتے کہ ہمارے یہاں طبقاتی اونچ نیچ سے متعلق تعصبات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ کنویں سے پانی لینے یا مندر میں قدم رکھ دینے کو گناہ سمجھنے کے لاکھوں واقعات ہیں تو پسماندہ طبقے کے افراد کی کسی اعلیٰ عہدہ تک رسائی کو ناپسندیدگی سے دیکھنے کے بھی واقعات ہیں۔ کیا جوتا پھینکنے کے مذموم عمل میں تعصب اور ناپسندیدگی کا جذبہ شامل ہے؟
کیا تعصب اور ناپسندیدگی کو تشدد میں ڈھالنے کی ہمت ملک کے اُس عمومی ماحول سے ملی جس میں کسی کو بھی پیٹ پیٹ کر مار دینا معمول بن گیا ہے؟ اس سلسلے کی تازہ ترین واردات رائے بریلی کی ہے جہاں ایک دلت کو ڈرون چور سمجھ کر اتنی بے دردی سے پیٹا گیا کہ اُس کی موت واقع ہوگئی۔ یہ واقعہ لنچنگ کے اُن بے شمار واقعات میں سے ایک ہے جسے اب ’’نیو نارمل‘‘ سمجھا جاتا ہے کہ ایسا تو ہوتا رہتا ہے۔ بات ہمت کی آئی ہے تو طرز عمل کا یہ فرق بھی دیکھ لیجئے کہ چیف جسٹس آف انڈیا نے ’’بہترین انتقام معافی‘‘ کی عمدہ مثال پیش کی اور خاطی وکیل کو معاف کردیا مگر خاطی وکیل اپنے کئے پر نادم نہیں ہوا، معافی نہیں مانگی۔ اس ہٹ دھرمی میں بھی بہت کچھ ہے جو سوچا سمجھا ہے، ہوسکتا ہے منظم اور منصوبہ بند بھی ہو اس لئے اِس واقعہ کی تحقیقات بہت ضروری ہیں۔ اس کا نظر انداز کیا جانا افسوسناک ہوگا۔