ووٹ چوری پہلے بھی ہوتی ہوگی۔ بوتھ کیپچرنگ (بوتھ لو‘ٹنے) کی مثال ایوان پارلیمان میں دی گئی۔ یہ غلط نہیں ہے مگر ووٹ چوری اور بوتھ لو‘ٹنے کے واقعات میں فرق ہے۔ جیسا کہ الزام ہے اور اگر راہل گاندھی کے پیش کردہ شواہد درست ہیں تو ووٹ چوری الیکشن کمیشن کی سرپرستی میں ہوئی ہے۔ یہ
ووٹ چوری پہلے بھی ہوتی ہوگی۔ بوتھ کیپچرنگ (بوتھ لو‘ٹنے) کی مثال ایوان پارلیمان میں دی گئی۔ یہ غلط نہیں ہے مگر ووٹ چوری اور بوتھ لو‘ٹنے کے واقعات میں فرق ہے۔ جیسا کہ الزام ہے اور اگر راہل گاندھی کے پیش کردہ شواہد درست ہیں تو ووٹ چوری الیکشن کمیشن کی سرپرستی میں ہوئی ہے۔ یہ بوتھ لو‘ٹنے کے واقعات سے اس لئے مختلف ہے کہ بوتھ لو‘ٹنے والے غیر سماجی عناصر ہوتے تھے جبکہ الیکشن کمیشن ملک کے اہم ترین جمہوری اداروں میں سے ایک ہے۔ ایک طرف غیر سماجی عناصر اور دوسری طرف الیکشن کمیشن جیسا باوقار ادارہ۔ اگر ایوان پارلیمان میں ووٹ چوری کے سلسلے میں مثال پیش کرنی ہی تھی تو کوئی اور مثال پیش کی جاسکتی تھی جس کا تعلق بوتھ لو‘ٹنے سے نہ ہوتا۔ بہرکیف، اس کے خلاف بحث کیلئے تیار ہوکر حکومت نےحزب اختلاف کو اپنی بات کہنے اور ایوان پارلیمان کے ذریعہ اسے عوام تک پہنچانے کا موقع دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مسئلہ عوام تک پوری جزئیات کے ساتھ پہنچا حالانکہ راہل گاندھی کی تین پریس کانفرنسیں مسئلہ کو شواہد کے ساتھ عوام تک لانے میں بہت مؤثر کردار ادا کرچکی تھیں ۔ کل، دہلی میں ووٹ چوری کے خلاف بہت بڑی ریلی کے ذریعہ بھی کانگریس نےمسئلہ کو اُجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کی وجہ سے کوئی دباؤ پڑے گا یا نہیں اور وہ شکایتیں دور ہوں گی یا نہیں جن کی طرف متوجہ ہونا الیکشن کمیشن کیلئے ناگزیر تھا مگر ایک بات ضرور ماننی پڑے گی کہ حزب اختلاف نے اسے موضوع بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ایوان پارلیمان میں اس پر بحث ہوجانا اہم ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے عوام کے درمیان لے جایا جائے۔ ممکن ہے کانگریس نے اسی مقصد کے تحت کل کی رَیلی کا انعقاد کیا ہو۔ مگر یہاں رُک جانا ٹھیک نہیں ہوگا بالخصوص ایسی صورت میں جب الیکشن کمیشن نے اب تک کسی بھی احتجاج یا بے شمار شکایتوں کا کوئی نوٹس نہ لیا ہو۔ اِس دوران یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عدالت کیا رُخ اختیار کرتی ہے۔ کیا عدالت ایس آئی آر کو ووٹ چوری ہی کا حصہ مان کر اُس مہم کو روک دے گی جو بہار سےشروع ہوکر اب دیگر بارہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں تک پہنچ گئی ہے اور جس کی وجہ سے اب تک دو درجن سے زائد بی ایل او اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ؟ عدالت سے اُمید تو ہے مگر یہ اُمید کس حد تک پوری ہوگی یہ جاننے کیلئے انتظار کرنا ہوگا۔ مشکل یہ ہے کہ ایسے مسائل جب بھی پیدا ہوتے ہیں ساری طاقت اور توانائی انہی کیلئے استعمال ہونے لگتی ہے، نتیجتاً وہ تمام مسائل پس پشت چلے جاتے ہیں جو روزمرہ زندگی میں عوام کیلئے آزمائش کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔ عام آدمی کے مسائل، مزدوروں کے مسائل، تعلیمی اداروں کے مسائل، اساتذہ کے مسائل، فضائی آلودگی کا مسئلہ، بے روزگاری کا مسئلہ، یہ سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی جن موضوعات میں ایکدوسرے کو نیچا دکھانے کا موقع دیکھتی ہیں ، اُنہی کو اہمیت دیتی ہیں حالانکہ عوام کی بھلائی ہی کا دم بھرا جاتا ہے۔ کیا عوام نت نئے موضوعات اُبھارنے کے اس رجحان کو محسوس کرتے ہیں ؟ کیا اس رجحان کے خلاف کچھ سوچتے ہیں ؟ اگر عوام نے غور و فکر کو اہمیت نہیں دی او راپنا موقف سیاسی جماعتوں پر واضح نہیں کیا تو یہ افسوسناک ہوگا۔ یہ کیوں بھلا یا جائے کہ جمہوریت میں آخر بالواسطہ حکمرانی عوام ہی کی تو ہوتی ہے!