انتخابات کے موقعوں پر اب یہ نعرہ کم کم ہی گونجتا ہے کہ ’’آئے گا تو مودی ہی‘‘ مگر جس دور میں یہ نعرہ چاروں طرف گونجتا تھا تب بہت سے لوگ اسے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی سمجھتے تھے۔
EPAPER
Updated: August 12, 2025, 1:27 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
انتخابات کے موقعوں پر اب یہ نعرہ کم کم ہی گونجتا ہے کہ ’’آئے گا تو مودی ہی‘‘ مگر جس دور میں یہ نعرہ چاروں طرف گونجتا تھا تب بہت سے لوگ اسے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی سمجھتے تھے۔
انتخابات کے موقعوں پر اب یہ نعرہ کم کم ہی گونجتا ہے کہ ’’آئے گا تو مودی ہی‘‘ مگر جس دور میں یہ نعرہ چاروں طرف گونجتا تھا تب بہت سے لوگ اسے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی سمجھتے تھے۔ اگر یہ نہیں تو اسے وزیر اعظم مودی کا جادو تصور کیا جاتا تھا۔ اور اگر یہ بھی نہیں تو اس کا معنی سمجھانے والے مختلف زاویوں سے سمجھاتے تھے کہ ’’آئے گا تو مودی ہی‘‘ کے اسباب میں کوئی ایک دو نہیں ، بے شمار سرگرمیاں شامل ہیں مثلاً بھارتیہ جنتا پارٹی کا الیکشن پرچار، اس پر جھونکی جانے والی توانائی، تمام بڑے لیڈروں کا میدان میں اُتارا جانا، میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال، خود وزیر اعظم کی ایک ایک دن میں کئی کئی ریلیاں اور روڈ شوز، اُن کو ملنے والا رسپانس، ہر جگہ اُن کی پزیرائی، ہندوتوا کا بڑھتا اثر و رسوخ،ہندو مسلم تفرقہ کی کوشش سے ہونے والا پولرائزیشن، بی جے پی کا ’’چناؤ تنتر‘‘ اور ’’پنا ّ پرمکھوں ‘‘ کی غیر معمولی جانفشانی اور ایسی ہی دیگر سرگرمیوں کو خاص طور پر بیان کیا جاتا تھا۔ کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ اس کے علاوہ بھی کچھ ہوسکتا ہے جس کی بنیاد پر شاندار کامیابی کا اتنے وثوق سے اعلان کیا جاتا تھا اور آئیگا تو مودی ہی کا جواز پیش کیا جاتا تھا۔
ر اہل گاندھی کے ’’ایٹم بم‘‘ نے واضح کردیا کہ کامیابی کا اصل سبب کچھ اور ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ الیکشن کمیشن نے اچانک اپنی روایت کیوں بدلی اور ووٹوں کی اصل تعداد ظاہر کرنے کے بجائے اس نے فیصد بتانے کا سلسلہ کیوں شروع کیا اور یہ بھی کھل گیا کہ الیکشن کمیشن زیادہ سے زیادہ سننے کے بجائے زیادہ سے زیادہ بولنے، جارح ہونے اور اپوزیشن کو دشمن کیوں سمجھنے لگا۔ راہل کے انکشافات سے اتنی بڑی دھاندلی کا راز فاش ہوا ہے کہ کسی نے اس بابت سوچا ہی نہیں تھا۔ سوچنے والوں کا ذہن انتخابی عمل کو یرغمال بنانے کے موضوع پر جاتا بھی تھا تو ای وی ایم کی طرف جاتا تھا مگر انتخابی فہرستوں کی طرف نہیں ۔ ایسا لگتا تھا کہ عنقریب غیر بی جے پی پارٹیاں ہتھیار ڈال دیں گی کیونکہ جہاں اُن کی فتح کا سو فیصد یقین ہوتا تھا وہاں بھی سوفیصد کامیابی بی جے پی ہی کو ملتی تھی یعنی ’’آئے گا تو مودی ہی‘‘ کا نعرہ سچ ثابت ہوتا تھا۔ ایسا بار بار ہوا۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ راہل کے انکشافات سے خود بی جے پی کی صفوں میں حیرانی پائی گئی ہوگی کہ جسے وہ مودی لہر، مودی کا جلوہ، مودی کا جادو، مودی کی مقبولیت، مودی کا کرشمہ یا مودی کی قیادت سمجھتے تھے وہ دراصل کچھ اور تھا جس کی اُنہیں بھی خبر نہیں تھی۔ خبر رہی بھی ہوگی تو ممکن ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر انجام دی جانے والی کارروائی کا علم نہ رہا ہو۔
راہل نے گزشتہ ہفتے انتخابی کمیشن کی جن دھاندلیوں کا پردہ فاش کیا، اُن کے بعد تو الیکشن کمیشن کہلانے والے آئینی اور جمہوری ادارے کے افسران کی زبان نہیں کھلنی چاہئے تھی۔ ایسی دھاندلی کہ جس کی وجہ سے الیکشن ہی پلٹ جائے اور لگاتار پلٹتا رہے، جمہوریت پر بڑی کاری ضرب ہے۔ اگر راہل کے انکشافات میں دم ہے تو الیکشن کمیشن کو اپنی غلطی ماننی چاہئے اور خاطی اہلکاروں کو سزا دینی چاہئے۔ اگر ان میں دم نہیں ہے تو واضح کرنا چاہئے کہ معاملہ کیا ہے۔ کمیشن چھپتا چھپاتا پھر ے اور کسی بات کی وضاحت نہ کرے تو جمہوریت میں یہ ممکن نہیں کہ آئین کی رو‘ سے تشکیل پانے والا ادارہ آئینی جوابدہی سے بچا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی خاموشی بہت کچھ سمجھا رہی ہے مگر اب جبکہ اپوزیشن سڑکوں پر ہے، اس کو زیادہ عرصہ خاموش رہنے کا موقع نہیں ملے گا، اب جوابدہی طے ہوکر رہے گی۔