Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈالر کی مخالفت میں ڈالر کی حمایت

Updated: June 10, 2025, 1:35 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اِن دنوں عالمی میڈیا میں ’’ڈی ڈالرائزیشن‘‘ کی اصطلاح اکثر و بیشتر استعمال کی جارہی ہے۔ ا س کا معنی ہے عالمی معیشت کا ڈالر پر انحصار کم کرنا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اِن دنوں  عالمی میڈیا میں  ’’ڈی ڈالرائزیشن‘‘ کی اصطلاح اکثر و بیشتر استعمال کی جارہی ہے۔ ا س کا معنی ہے عالمی معیشت کا ڈالر پر انحصار کم کرنا۔ اس مقصد کیلئے جو ممالک سرگرم ہیں  اُنہیں  کتنی کامیابی مل پائےگی، ملے گی بھی یا نہیں ، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں  ہوگا مگر یہی وہ موضوع ہے جو جنابِ ٹرمپ کو غصہ دِلاتا ہے۔ اُن کی آدھی بوکھلاہٹ اسی وجہ سے ہے۔ بقیہ آدھی اُن کے مزاج کا حصہ ہے۔ مگر اس سے قبل کہ ہم اُن کے اقدامات کے تعلق سے کچھ عرض کریں ، قارئین کو یہ بتانا بے محل  نہ ہوگا کہ ڈالر پر انحصار کم کرنے کی ضرورت کیوں  محسوس کی جارہی ہے۔
  اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکی کرنسی دُنیا بھر میں  ریزرو کرنسی کی حیثیت رکھتی ہے یعنی الگ الگ ممالک، ایک دوسرے سے لین دین کیلئے جس کرنسی کا استعمال کرتے ہیں  اور جس کے ذخیرے کو ضروری سمجھتے ہیں  وہ ڈالر ہے۔  دیگر ملکوں  کی کرنسی بھی ریزرو کرنسی کے طور پر ذخیرہ کی جاتی ہے مگر سب سے زیادہ فوقیت ڈالر کو حاصل ہے۔ یہ رجحان دوسری عالمی جنگ کے بعد پروان چڑھا جب امریکہ نے سب سے بڑی اور طاقتور عالمی معیشت کے طور پر اپنی شناخت مستحکم کی۔ اس طرح کم و بیش نصف صدی کے دوران ڈالر نے دُنیا کی دیگر کرنسیوں  پر سبقت برقرار رکھی اور عالمی تجارت میں  اسی کا سب سے زیادہ استعمال کیا گیا۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ڈیٹا کے مطابق ۲۰۲۴ء کی تیسری سہ ماہی کے اخیر میں  ریزرو کرنسی کے طور پر مختلف ملکوں  میں  ڈالر کا ذخیرہ ۵۷؍ فیصد تھا۔ اس کے بعد ’’یورو‘‘  کا ۲۰؍ فیصد اور جاپانی ’’ین‘‘ کا ۶؍ فیصد ذخیرہ تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دوئم اور سوئم نمبر کی کرنسی امریکی کرنسی سے کتنی پیچھے ہے۔ 
 ڈالر کی اسی بالادستی کے خلاف کچھ ممالک کسی دوسری کرنسی کو یہ مقام دلانے کے خواہشمند ہیں ۔ یہ کس حد تک قابل عمل ہے یہ کہنا مشکل ہے البتہ غیر امریکی ملکوں  میں  ڈالر کے ذخیرہ کی مقدار، جو ۲۰۰۱ء میں  ۷۰؍ فیصد تھی، کم ہوئی ہے جیسا کہ آپ نے بالائی سطور میں  پڑھا۔ اس کے باوجود، ڈالر کی بتدریج غیر مقبولیت  کو کسی اور کرنسی کی مقبولیت کے روشن امکان کے طور پر نہیں  دیکھا جاسکتا کیونکہ اگر ۲۰۰۱ء سے ۲۰۲۴ء تک ڈالر کی مقبولیت میں  ۱۳؍ فیصد تخفیف ہوئی ہے تو  ۱۳؍ فیصد کا اضافہ ریزرو کرنسی کے طور پر کسی دیگر کرنسی، مثلاً یورو، یَن یا برطانوی پونڈ، میں  نہیں  ہوا۔ چین بڑی شدت سے چاہتا ہے کہ عالمی تجارت کا امریکی ڈالر  پر انحصار کم سے کم ہو، اس کی کرنسی کو ریزرو کرنسی کے طور پر قبولیت بھی حاصل ہوئی مگر عالمی ریزرو میں  اس کی کرنسی کا فیصد ۲ء۲؍ فیصد سے زیادہ نہیں  ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ڈالر  کی مقبولیت میں  بھلے ہی کمی آئی ہے مگر اب بھی وہ وقت کافی دور ہے جب کسی اور ملک کی کرنسی ڈالر  کی جگہ لے۔
 اسکے باوجود ٹرمپ خطرہ مول نہیں  لینا چاہتے۔ ٹیرف سے متعلق اُن کی دھاندلی اسی و جہ سے ہے۔ اُن کا بار بار لال پیلا ہونا بھی اسی باعث ہے۔  ’’برکس‘‘ (برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ) کے اتحاد کو وہ اسی لئے دشمن سمجھتے ہیں  جو ڈالر کی بالادستی پر کئی بار گفتگو کرچکا ہے۔ ۲۰۲۴ء کی قازان (روس) کانفرنس میں  بھی یہ موضوع زیر بحث رہا۔ ہرچند کہ اب یہ اتحاد خاموش ہے مگر ٹرمپ کب نچلا بیٹھنے والے؟ وہ، اتحاد میں  شامل ملکوں  کے خلاف ڈالر کی بادشاہت کیلئے سرگرم ہیں  ۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK