• Fri, 13 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بنگلہ دیش میں آمریت کا سَر نیچا

Updated: August 07, 2024, 1:34 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

بنگلہ دیش جغرافیائی اعتبار سے ہندوستان سے دور نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہی خطہ ہے جسے برصغیر کہا جاتا ہے مگر جب ذرائع ابلاغ کو مکمل آزادی حاصل نہ ہو اور حالات و واقعات نیز زمینی حقائق کو میڈیا میں جگہ نہ ملتی ہو تو قریب کے ممالک بھی دور بلکہ بہت دور محسوس ہونے لگتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی بنگلہ دیش کے بارے میں عالمی برادری کی ’’کم خبری‘‘ کا ہے۔ یہ علم تو سب کو تھا کہ بنگلہ دیش کس رُخ پر جارہا ہے مگر کسی کو احساس نہ رہا ہوگا کہ شیخ حسینہ کیلئے اتنی بڑی مصیبت کھڑی ہوجائیگی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 بنگلہ دیش جغرافیائی اعتبار سے ہندوستان سے دور نہیں  ہے بلکہ یہ ایک ہی خطہ ہے جسے برصغیر کہا جاتا ہے مگر جب ذرائع ابلاغ کو مکمل آزادی حاصل نہ ہو اور حالات و واقعات نیز زمینی حقائق کو میڈیا میں  جگہ نہ ملتی ہو تو قریب کے ممالک بھی دور بلکہ بہت دور محسوس ہونے لگتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی بنگلہ دیش کے بارے میں  عالمی برادری کی ’’کم خبری‘‘ کا ہے۔ یہ علم تو سب کو تھا کہ بنگلہ دیش کس رُخ پر جارہا ہے مگر کسی کو احساس نہ رہا ہوگا کہ شیخ حسینہ کیلئے اتنی بڑی مصیبت کھڑی ہوجائیگی۔ 
 طلبہ کی تحریک نے دیکھتے ہی دیکھتے ایسی شدت اختیا رکرلی کہ خود مستعفی وزیر اعظم کو اس کا اندازہ نہیں  رہا ہوگا کہ اُن کا اقتدار چھن جائیگا اور اُنہیں  استعفیٰ دے کر راہِ فرار اختیار کرنی پڑے گی۔ وہ محفوظ تو ہیں  مگر ہزیمت اور رُسوائی اب بھی اُن کا تعاقب کررہی ہے۔ ساڑھے سترہ کروڑ کی آبادی پر راج کرنے والی شیخ حسینہ کے راج کا تاراج ہونا تاریخ کا ایسا سبق ہے جو اُن کے ملک میں  بار بار دُہرایا گیا مگر کچھ لوگ عاقبت نا اندیشی کے سبب طے کر لیتے ہیں  کہ تاریخ سے کچھ نہیں  سیکھیں  گے۔ ایسے لوگوں  کو تاریخ خود ہی سبق سکھانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ شیخ حسینہ وقت کے ساتھ اتنی آمریت پسند ہوگئی تھیں  کہ اُنہیں  تاریخ فراموشی کی سزا ملنی ہی تھی۔ مگر، یہ صرف تاریخ فراموشی کی سزا نہیں  ہے۔ 
 پندرہ سال پر محیط اُن کے حالیہ دور ِ اقتدار میں  اُن کا طرز عمل جمہوریت فراموشی اور عوام فراموشی سے بھی عبارت رہا لہٰذا اسے تہری سزا کہنا زیادہ موزوں  ہوگا۔ اُنہو ں نے جمہوریت کا گلا گھونٹنے میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑی، حزب اختلاف کو زنجیروں  میں  جکڑ دیا تھا، عوامی حقوق کی اُنہیں  ذرہ برابر پروا نہیں  تھی اور خود کو نیز اپنی حکومت کو اُنہوں  نے ہر طرح کی جوابدہی سے بالاتر کررکھا تھا۔ بلاشبہ اِس دوران اُنہوں  نے بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کیلئے کوششیں  کیں  اور ان کوششوں  کے بہتر نتائج بھی برآمد ہوئے مگر جی ڈی پی اور پی سی آئی (فی کس آمدنی) میں  اضافہ سے خوشحالی نہیں  آتی۔ خوشحالی عوام کے سکون و اطمینان او ربرسراقتدار طبقے کے تئیں  اُن کی قبولیت اور اعتماد سے جھلکتی ہے۔ شیخ حسینہ کے بنگلہ دیش کی پَر کیپیٹا جی ڈی پی بھلے ہی ۲۶۸۸؍ ڈالر رہی ہو، عوام اپنی حکومت سے نالاں ، بدظن اور پریشان تھے۔ اگر ہم یہ سمجھیں  کہ شیخ حسینہ حکومت کا تختہ کوٹہ یا ریزرویشن کی وجہ سے اچانک پلٹا ہے تو شاید ہم غلطی پر ہوں  کیونکہ اُس کے خلاف تو وہاں  کی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا تھا۔ برسوں  کی عوامی ناراضگی نہ رہی ہوتی تو مظاہرین سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گھر لوَٹ جاتے۔
 عوامی تحریکات نہ تو اچانک شروع ہوتی ہیں  نہ ہی اچانک ختم ہوتی ہیں ۔ جب کافی عرصہ تک عوامی غصہ اُبلتا ہے تب اس آتش فشاں  کے پھٹنےکا خطرہ بھی بڑھتا رہتا ہے۔ شیخ حسینہ نشہ ٔ اِقتدار میں  چور تھیں ، اُنہیں  عوامی غصہ کی آہٹ نہیں  سنائی دی اور جب سنائی دی تب دھماکہ ہونے کو تھا۔ اُن کا مزاج جمہوری ہوتا تو اُن کیلئے موقع تھا۔ وہ عدالتی فیصلے کو بنیاد بنا کر کہہ سکتی تھیں  کہ سپریم کورٹ نے جو کہہ دیا وہی ہوگا۔ اعتماد سازی کے ساتھ ہی خیرسگالی کی کوشش بھی ہوسکتی تھی مگر اُنہوں  نے کچھ نہیں  کیا۔ جو سزا اُنہیں  ملی اُ س میں  شکست بھی ہے رُسوائی بھی۔ یہ اُن کے سراسر غیر جمہوری ہونے کا نتیجہ ہے۔ ویسے بھی آمریت کا سر نیچا ہوکر رہتا ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK