انسانی زندگی پہلے بھی مشکلات سے گھری ہوئی تھی مگر دور حاضر کی مشکلات اس لئے حیران کرتی ہیں اور زیادہ تکلیف پہنچاتی ہیں کہ یہ اکیسویں صدی ہے، دسویں ، بارہویں یا ایسی ہی کوئی اور صدی نہیں جس میں ایجادات کی راہیں مسدود، انکشافات کی رفتار سست اور وسائل کی دنیا محدود تھی۔
انسانی زندگی پہلے بھی مشکلات سے گھری ہوئی تھی مگر دور حاضر کی مشکلات اس لئے حیران کرتی ہیں اور زیادہ تکلیف پہنچاتی ہیں کہ یہ اکیسویں صدی ہے، دسویں ، بارہویں یا ایسی ہی کوئی اور صدی نہیں جس میں ایجادات کی راہیں مسدود، انکشافات کی رفتار سست اور وسائل کی دنیا محدود تھی۔ چاند پر کمند ڈالنے کے بعد مریخ تک رسائی کی طاقت و صلاحیت رکھنے والی موجودہ صدی اب سے پہلے کے کسی بھی دور سے زیادہ وسائل کی حامل ہے۔ غذا کی بات کی جائے تو پیداوار اتنی بڑھ چکی ہے کہ ایک شخص بھی بھوکا نہ رہے اس کے باوجود بھوک اور ناقص غذائیت کا مسئلہ حل ہونے کا نام نہیں لیتا۔ ظاہر ہے کہ یہ مواقع کی جانبدارانہ فراہمی اور دولت کی غیر مساوی تقسیم کا نتیجہ ہے جو بذات خود نتیجہ ہے نظام عدل پر نظام استحصال کے غلبے کا۔ ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں آج کا دور ترقی یافتہ کہلاتا ہے مگر اس کی ترقی ایسا چراغ ہے جو روشنی کم دیتا ہے، دھواں زیادہ پھیلاتا ہے۔ روشنی ارب پتیوں کے دولتکدوں میں جاتی ہے اور دھواں بقیہ ہندوستان کے ایک ایک مکان میں داخل ہوتا ہے۔ گزشتہ سال مارچ میں ٹائم میگزین نے’’ورلڈ ان اکوالیٹی لیب‘‘ کے ایک مطالعے کے حوالے سے لکھا تھا کہ اس وقت ہندوستان میں دولت (آمدنی) کی تقسیم کا یہ حال ہے کہ اگر اس کا انگریزوں کے دور سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تب زیادہ مساوات تھی جو آزاد ہندوستان کے موجودہ دور تک آتے آتے کافی حد تک فضا میں تحلیل ہوگئی ہے۔ اعدادوشمار کا کھیل خزاں پر بہار کی خوشنما چادر اس طرح پھیلا دیتا ہے کہ چند لمحوں کیلئے ہر خاص و عام بڑی معیشت اور تیز رفتار معیشت کے جھانسے میں آجاتا ہے۔ بلاشبہ معیشت بڑی ہے، اسے ہم بھی چھوٹا نہیں کہتے مگر سوال اس کے حجم سے زیادہ غیر نافع یا کم نافع ہونے کا ہے یا ایسے نظم کا ہے جس کے تحت چند پر ہن برس رہا ہے اور بقیہ تمام کو گھن لگ رہا ہے۔
اس ترقی کو کس دل سے ترقی کا نام دیا جائے جس کے سائے میں کلاس فور کی ملازمت کیلئے پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی نوجوان ہاتھ باندھے کھڑے ہوں اور التجا کررہے ہوں کہ کلاس فور تو کلاس فور ہی سہی ملازمت تو ملے؟ اس ترقی کو کیونکر ترقی سے موسوم کیا جائے جس میں نوے کروڑ لوگ مفت کے راشن پر گزر بسر اور اپنی عزت نفس کا سودا کررہے ہوں ۔ اب یا تو چوتھی سب سے بڑی معیشت کے دعوے کو درست مانا جائے یا مفت راشن کی اسکیم کو۔ بیک وقت دونوں باتیں تو درست نہیں ہوسکتیں ۔ عالمی سطح پر تیز رفتار معیشت کا غلغلہ جی ڈی پی کے پیش نظر ہے جس کا معنی ہے مجموعی گھریلو پیداوار ہے مگر فی کس آمدنی ہماری حقیقت کو اس طرح طشت از بام کرتی ہے کہ ہم ’’پر کیپیٹا جی ڈی پی‘‘ کے عالمی جدول میں ۱۴۱؍ ویں مقام پر پہنچ جاتے ہیں ۔ اس کا دیگر ملکوں سے موازنہ کیا جائے تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوگا کہ ہندوستان میں فی کس آمدنی کا اوسط، عالمی فی کس آمدنی کے اوسط کا صرف ۱۸؍ فیصد ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ ہم کاغذ پر ترقی کرنے کے بجائے زمین پر ترقی کریں یعنی ایک ایک شہری کے زمینی حالات بہتر ہوں اور اس کے قدم زمین پر مضبوط ہوں ۔ قدم زمین پر مضبوطی سے جمے ہوں تو بلندیاں خود پکارتی ہیں ۔