• Sun, 07 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عید میلاد اور غور و فکر کی چند باتیں

Updated: September 05, 2025, 1:42 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

فرمایا گیا ہے: ’’اور ہم نے آپ کیلئے آپ کا ذکر بلند کردیا ہے۔‘‘ یہ محض فرمان نہیں تھا، وعدہ تھا جو آج تک پورا ہورہا ہے اور بلاشبہ قیامت تک پورا ہوتا رہے گا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 فرمایا گیا ہے: ’’اور ہم نے آپ کیلئے آپ کا ذکر بلند کردیا ہے۔‘‘ یہ محض فرمان نہیں   تھا، وعدہ تھا جو آج تک پورا ہورہا ہے اور بلاشبہ قیامت تک پورا ہوتا رہے گا۔ اس ایفائے عہد کو ذہن میں   رکھ کر تصور کیجئے کہ کس طرح یہ ذکر، یہ آوازہ بلند ہورہا ہے۔ صبح ہوتی ہے، آپ ہم نیند سے بیدار ہوئے ہوں   یا نہ ہوئے ہوں   مگر ذکر بلند ہوجاتا ہے، آپ نے آج تک نہ سنا ہوگا کہ کسی علاقے کی کسی مسجد سے کسی دن ایسا ہوا کہ آوازہ بلند نہیں   ہوا۔ ایسا نہ تو ہوا ہے نہ ہی کبھی ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ قدرت نے خود اس کا وعدہ فرمایا ہے لہٰذا وعدہ ہے کہ مؤذن کی آنکھ لگ جائے تب بھی پورا ہوتا ہے اور امام صاحب بیدار نہ ہوسکے ہوں   تب بھی پوراہوتا ہے۔ 
 مزید تصور کیجئے تو آپ عش عش کریں   گے کہ اذانوں   کے ذریعہ ذکر بلند ہونے کا سلسلہ پوری دُنیا میں   اس طرح جاری رہتا ہے کہ دن کا کوئی وقت ایسا نہیں   گزرتا جب کرۂ ارض پر کسی نہ کسی جگہ یہ آوازہ بلند نہ ہورہا ہو۔ سبحان تیری قدرت۔ تیرے غافل بندے تیرے اس وعدے کو پورا کرنے کا ذریعہ نہ بنتے اگر تو نے اُنہیں   یہ سعادت نہ بخشی ہوتی۔ اتنا ہی نہیں  ، ہر نماز میں  ، ہر ملک میں  ، ہر جگہ، ہر محفل میں  ، ہر وعظ میں   اور ہر جلسے میں   یہ آوازہ ہے کہ بلند ہورہا ہے کیونکہ اسے بلند ہونا ہے اور ہوتے رہنا ہے۔ اسی لئے بندگان خدا کو سوچنا چاہئے کہ کیا یہ منبر و محراب و مینار ہی سے گونج رہا ہے یا دلوں   میں   بھی گونجتا ہے؟ 
 دلوں   میں   گونجے تو دھڑکنوں   کا آہنگ بدل جائے، ذہن و دل کی کیفیت تغیر پزیر ہو، بات چیت میں   لہجہ بدل جائے، ایک ایک عمل کی نوعیت مختلف ہوجائے، عبادتوں   کی گہرائی و گیرائی میں   فرق آجائے، گویا شب و روز کے انداز میں   انقلابی تبدیلی رونما ہو اور چھوٹے بڑے ہر عمل سے ظاہر ہو کہ بلندیٔ ذکر کا معاملہ خارجی نہیں   رہ گیا، داخلی ہوچکا ہے۔ ایک آواز ہے جو ہمہ وقت قلب و ذہن میں   گونجتی رہتی ہے مگر کیا ایسا ہوتا ہے؟ یہ ہمارا قصورِ کوتاہ بینی ہوسکتا ہے کہ جس ذکر کا ذکر ہورہا ہے وہ ہمیں   عمل میں   نظر نہیں   آتا۔ آتا بھی ہے تو کم کم جس سے شبہ ہوتا ہے کہ خوفِ خدا تو ہے فکر ِ دُنیا بھی ہے اور اکثر اوقات فکر ِ دُنیا کا غلبہ ہوتا ہے، خوفِ خدا پیچھے چلا جاتا ہے۔ ذکر بلند ہو عمل سے، ایک ایک عمل سے۔ پروپیگنڈہ کے اِس دور میں  ، دین ِ برحق کا دفاع کیوں   کرنا پڑتا ہے؟ اس لئے کہ دین ِبرحق کے ماننے والوں   نے اُس ذکر کو عمل میں   نہیں   ڈھالا اور کردار کو حسن ِکردار کا زیور عطا نہیں   کیا۔
  عمل کے ذریعہ ذکر بلند کرنے کا طریقہ تو یہ ہے کہ اگر لب خاموش ہیں   تب بھی فعل، عمل یا کردار گواہی دے کہ یہ اُس دین کے پیروکار ہیں   جس کا منبع وہ کتاب ہے جو نازل کی گئی اور وہ سیرت ہے جو کتاب کی عملی تفسیر بن کر سامنے آئی اور ہمہ وقت دعو تِ عمل دیتی رہتی ہے۔ آج دین حق کے پیروکار ساری دُنیا میں   پریشان اس لئے ہیں   کہ انہوں   نے دین حق کو عمل کے ذریعہ Establishنہیں   کیا۔ الفاظ تب مؤثر بنتے ہیں   جب عمل میں   جلوہ گر ہوتے ہیں  ۔ قول تب حرارت پیدا کرتا ہے جب فعل کی کسوٹی پر پورا اُترتا ہے۔ آج کے مبارک موقع پر یہ عہد کیا جانا چاہئے کہ جس کتاب پر ہمیں   ناز ہے وہ طاق پر دھری نہ رہے یا کبھی کبھار اُس کی قرأت پر اکتفا نہ ہو بلکہ اس کے معنی و مفاہیم کو سمجھا جائے اور اس کا جائزہ لیا جائے کہ اس کی وجہ سے خوشگوار تبدیلی آرہی ہے یا نہیں  ۔قرأت بھی ہو اور تبدیلی بھی نہ آئے تو محاسبہ کی ضرورت سے انکار نہ کیا جائے جو رسمی نہیں  ، مخلصانہ ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK