گزشتہ ہفتے وہائٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ کی اندوہناک واردات کے بعد صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے تیسری دنیا کے لوگوں پر امریکہ کے دروازے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کہنا
گزشتہ ہفتے وہائٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ کی اندوہناک واردات کے بعد صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے تیسری دنیا کے لوگوں پر امریکہ کے دروازے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کہنا مشکل ہے کہ وہ اس اعلان پر کب اور کس حد تک عمل کرینگے۔ وہ اتنی باتیں کہتے ہیں کہ شاید خود بھی یاد نہ رکھ پاتے ہونگے۔ بہرکیف، اس اعلان سے ایک ایسی اصطلاح میں جان پڑ گئی ہے جو عوامی ذہنوں سے محو ہو چکی تھی۔ ’’تیسری دنیا‘‘ کی اصطلاح خبروں سے نکل چکی تھی مگر ٹرمپ نے اس کا نام کیا لیا، اخبارات اور نیوز چینلوں کی سرخیوں نے اس کیلئے اپنا دامن ایک بار پھر پھیلا دیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوئی سرد جنگ جب تک جاری رہی، تیسری دنیا موضوع بحث رہی۔ اس کے بعد سے لوگ باگ اسے بھولے ہوئے تھے۔ نئی نسل کے بیشتر لوگ جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پیدا ہوئے، جانتے ہی نہ ہونگے کہ تیسری دنیا ہے کس بلا یا کس چڑیا کا نام۔ اس سے قبل کہ نئی نسل کے افراد کی اطلاع اور پختہ عمر کے قارئین کی یاد دہانی کیلئے عرض کیا جائے کہ تیسری دنیا کیا ہے، آئیے پہلے یہ سمجھ لیں کہ پہلی اور دوسری دنیا کون سی ہے۔
تاریخی اعتبار سے پہلی دنیا میں وہ جمہوری ممالک تھے جو امریکہ کے ہمنوا تھے۔ یہ ممالک صنعتی طور پر ترقی یافتہ سمجھے جاتے تھے۔ ان میں شمالی امریکہ، مغربی یورپ، جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا شامل تھے۔ بعض ایسے ممالک بھی تھے جو امریکہ کے ہمنوا تو نہیں تھے مگر ترقی یافتہ ہونے کے سبب پہلی دنیا کا حصہ قرار دیئے جاتے تھے۔ ان میں سوئزر لینڈ، سویڈن، آسٹریا، آئر لینڈ اور فن لینڈ شامل تھے۔ پہلی دنیا میں مغربی صحارا ممالک اور جنوبی افریقہ جیسے ملکوں کو بھی شامل کیا جاتا تھا، محض اس لئے کہ ان کا مغربی ملکوں سے رابطہ تھا۔
دوسری دنیا وہ تھی جس میں سوویت یونین کے ممالک، پولینڈ سمیت مشرقی یورپ، مشرقی جرمنی، چیکوسلواکیہ، بلقانی علاقے اور کمیونسٹ ایشیائی ممالک مثلاً چین، منگولیا، شمالی کوریا اور دیگر تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سرد جنگ کے دور میں پہلی اور دوسری دنیا اپنی جگہ موجود رہی مگر متعلقہ اصطلاح اتنے تواتر کیساتھ استعمال نہیں کی گئی جتنی تیسری دنیا موضوع بحث رہی۔ اب آئیے تیسری دنیا کی طرف۔
تیسری دنیا میں تمام باقیماندہ ممالک تھے جن کا ذکر اوپر نہیں آیا ہے۔ ان میں زیادہ تر پسماندہ ممالک تھے جن کی معیشت کا انحصار زراعت پر تھا۔ افریقی ممالک، غیر کمیونسٹ ایشیائی ممالک اور لاطینی امریکہ کو تیسری دنیا میں شمار کیا جاتا تھا۔ ہمارے ملک کو تیسری دنیا کا حصہ ہی قرار دیا جاتا تھا حالانکہ ہم بہت سے معاملات میں ایسے نہیں تھے کہ پسماندہ قرار دیئے جاتے۔
اِن تین بلاکس کو آسان لفظوں میں اس طرح سمجھئے کہ ناٹو میں شامل ممالک پہلی دنیا کا حصہ، وارسا معاہدہ پر دستخط کرنے والے ممالک دوسری دنیا کا حصہ جبکہ غیر وابستہ تحریک کے ممالک تیسری دنیا کا حصہ تھے جو نہ تو پہلے بلاک سے خود کو وابستہ کرتے تھے نہ ہی دوسرے بلاک سے۔ اب نہ تو الگ الگ ملکوں کو ان تین زمروں کے نقطۂ نظر سے دیکھا جاتا ہے نہ ہی ان کیلئے متعلقہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اب ملکوں کی زمرہ بندی ان کی معاشی طاقت کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ وہ تحریک جو غیر وابستہ یا ناوابستہ کہلاتی تھی، وہ بھی اپنی شناخت کھو چکی ہے۔