کل سے پہلے کوئی ہم سے پوچھتا کہ کیا امدادی کشتیوں کا قافلہ جسے ’’صمود‘‘ نام دیا گیا ہے، منزل مقصود پر بخیر و عافیت پہنچ جائیگا اور ان کشتیوں پر سوار رضاکاروں کو اپنے مقصد میں کامیابی مل جائیگی جو کہ سراسر انسانی مقصد ہے تو لاکھ خواہش کے باوجود کہ یہ لوگ غزہ سے کامیابی و کامرانی کے ساتھ لوٹیں ، ہمارا جواب ہوتا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ ا
کل سے پہلے کوئی ہم سے پوچھتا کہ کیا امدادی کشتیوں کا قافلہ جسے ’’صمود‘‘ نام دیا گیا ہے، منزل مقصود پر بخیر و عافیت پہنچ جائیگا اور ان کشتیوں پر سوار رضاکاروں کو اپنے مقصد میں کامیابی مل جائیگی جو کہ سراسر انسانی مقصد ہے تو لاکھ خواہش کے باوجود کہ یہ لوگ غزہ سے کامیابی و کامرانی کے ساتھ لوٹیں ، ہمارا جواب ہوتا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لئے کہ جو طاقت ہلاک کررہی ہے، بے گھر کررہی ہے، بچوں ، خواتین اور بزرگوں کو بھی بخشنے کیلئے تیار نہیں ہے اور مصنوعی قحط برپا کرکے لاکھوں لوگوں کو تڑپا رہی ہے اور چاہتی ہے کہ جو لوگ بمباری سے فوت نہیں ہوئے وہ بھوک اور پیاس کی شدت سے موت کے منہ میں چلے جائیں وہ ہرگز نہیں چاہے گی کہ بیرونی ملکوں کے لوگ اُس جگہ آئیں جہاں اُس نے قبضہ کررکھا ہے اور اُن لوگوں کو مصنوعی قحط سے آزاد کریں جن سے وہ خدا واسطے کا بیر رکھتی ہے۔ اُس طاقت کی پشت پناہ طاقتیں بھی انسانیت پر اپنے یقین کا ثبوت دینے کو تیار نہیں ہیں ، شاید اس لئے کہ ان میں انسانیت کی رمق بھی باقی نہیں رہ گئی ہے۔
اندیشہ تھا کہ فلوٹیلا صمود میں شامل کشتیوں پر حملہ ہوگا، اُنہیں روک دیا جائیگا، اُن کے سواروں کو حراست میں لے لیا جائیگا اور امداد رسانی کو ناکام بنا دیا جائیگا۔ وہی ہوا۔ ہندوستانی وقت کے مطابق ۲؍ دسمبر کی علی الصباح اسرائیلی بحریہ نے کارروائی کی اور اتنا طویل سفر طے کرکے ’’خطرناک زون‘‘ میں داخل ہونے والوں کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ یہاں اس اعادہ کی ضرورت نہیں ہے کہ فلوٹیلا میں شامل کشتیوں پر کیسے کیسے لوگ سوار تھے۔ ان میں ڈاکٹر تھے، وکلاء تھے، پارلیمانی اراکین تھی، کئی شہرہ آفاق شخصیات مثلاً گریٹا تھنبرگ اور نیلسن منڈیلا کے پوتے مانڈیلا منڈیلا شامل تھے مگر تل ابیب نے انسانیت کو بھی دشمنی اور حریفائی سمجھا۔ اگر اُس میں معمولی سی بھی انسانیت ہوتی تو کہتا کہ آپ کو آنے کی ضرورت نہیں ، اہل غزہ کی خوردونوش کا خیال ہم رکھیں گے یا اقوام متحدہ کے کارکنان کو غذائی اجناس فراہم کرینگے تاکہ وہ انہیں تقسیم کردیں گے مگر یہ تو اُس کے منشور میں شامل ہی نہیں ہے۔ وہ تو بھوکا رکھنا چاہتا ہے، پیاسا رکھنا چاہتا ہے، تڑپانا چاہتا ہے، ایڑیاں رگڑنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے، وہ انسانی نقطۂ نظر سے کیوں سوچنے لگا؟
چونکہ یہ تو ہونا ہی تھا اور ہوکر رہا، اس لئے اِس پر مزید کچھ کہنے سننے کے بجائے ہم چاہیں گے کہ فلوٹیلا میں شامل کشتیوں کے تمام سواروں کے حوصلے کی داد دیں جنہوں نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر غزہ تک پہنچنے کی کوشش کی، اپنی توانائی اور وقت صرف کیا، گھر بار اور ملازمت یا کاروبار کی ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھا، سفر کی دشواریوں کا دیوانہ وار مقابلہ کیا اور ثابت کردیا کہ دُنیا میں ابھی انسانیت زندہ ہے۔ حکومتیں مصلحت کوش اور مبتلائے منافقت ہوسکتی ہیں اُن کے عوام نہیں ہیں ، وہ دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں یعنی ایسی خوبی کے حامل ہیں جو انسان کو انسان بناتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس سے قبل جن کشتیوں نے غزہ کا رُخ کیا تھا اُنہیں ناکام بنادیا گیا اور رضاکارو ں کو گرفتار کرکے واپس بھیج دیا گیا تھا اس کے باوجود اِنہوں نے کمر باندھی اور عازم ِ غزہ ہوئے۔ اہل غزہ نے بھی ان کی جرأت کو محسوس کیا ہوگا اور پریشاں حالی میں بھی ان کی ہمدردی کی داد دی ہوگی۔ کل جب تاریخ لکھی جائیگی نیتن یاہو پر لعنت برسائی جائیگی اور فلوٹیلا والوں کو دُعا دی جائیگی۔