اقوام متحدہ کے ۱۹۳؍ رکن ممالک میں ۱۷۱؍ ممالک آزاد مملکت فلسطین کے حق میں ہیں۔ فقط امریکہ اور اسرائیل آزاد مملکت فلسطین کے قیام و استحکام کے مخالف اور غزہ میں نسل کشی کے در پے ہیں۔
EPAPER
Updated: October 03, 2025, 1:48 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
اقوام متحدہ کے ۱۹۳؍ رکن ممالک میں ۱۷۱؍ ممالک آزاد مملکت فلسطین کے حق میں ہیں۔ فقط امریکہ اور اسرائیل آزاد مملکت فلسطین کے قیام و استحکام کے مخالف اور غزہ میں نسل کشی کے در پے ہیں۔
غزہ میں ۶۵؍ ہزار سے زیادہ افراد جن میں عورتیں ، بچے، بیمار اور بوڑھے بھی شامل ہیں جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ ان کے علاوہ کافی لوگ بھکمری یا دربدری کا شکار ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ایسے میں برطانیہ، کنیڈا، آسٹریلیا، پرتگال اور فرانس کا یہ اعلان کہ وہ آزاد مملکت ِ فلسطین کو منظور یا تسلیم کرتے ہیں بہت مبارک ہے۔ چین اور روس پہلے ہی آزاد مملکت ِ فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی ووٹنگ اور رائے سے اشارہ مل چکا ہے کہ آج اقوام متحدہ کے ۱۹۳؍ رکن ممالک میں ۱۷۱؍ ممالک آزاد مملکت ِ فلسطین کے حق میں ہیں ۔ فقط امریکہ اور اسرائیل آزاد مملکت ِ فلسطین کے قیام و استحکام کے مخالف اور غزہ میں نسل کشی کے در پے ہیں لیکن چونکہ امریکہ کو رسوخ، دولت اور ویٹو پاور حاصل ہے اس لئے آزاد مملکت ِ فلسطین کے قیام کی ڈگر مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن قدرت کے کھیل نرالے ہیں ۔ اس کھیل کے ہوتے امریکہ اور اسرائیل کے مظالم کا رخ خود ان کی طرف ہوجانا مشکل نہیں ہے۔ قدرت کا کھیل ہی تو ہے کہ ۱۹۱۷ء میں بلفور اعلانیہ میں فلسطین میں یہودیوں کے لئے ایک گھر بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس میں یہ وعدہ تھا کہ وہاں رہ رہے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ لیکن عملاً ہوا یہ کہ فلسطین میں نہ صرف یہودیوں کی ایک مملکت بنائی گئی بلکہ اس مملکت نے وہاں بسے ہوئے لوگوں کو بے گھر کرنا، قتل کرنا، اپنی بستیاں بسانا شروع کیا اور اقوام متحدہ اپنی ہی قرار دادوں پر عمل درآمد نہیں کرسکی۔ عالم ِ انسانیت بھی تماشائی بنی رہی۔ امریکہ اور اسرائیل نے خود عرب ملکوں میں ایک بڑی لابی تیار کرلی۔
لیکن قدرت نے کھیل یہ کھیلا کہ قطر پر اسرائیل سے حملہ کروا کے قطر کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر جیسے ملکوں کو بھی احساس دلا دیا کہ اسرائیل قطر پر حملہ کرسکتا ہے تو ان پر بھی حملہ کرسکتا ہے یعنی امریکہ کے حلیف ہونے کے باوجود وہ محفوظ نہیں ہیں ۔ اسی سوچ نے اسرائیل کے خلاف مشترکہ اور متحدہ فوجی اقدام کی بات سجھائی۔ اس سے پہلے نہ صرف عالمی برادری اور عالم عرب بلکہ خود عرب ممالک بھی منتشر تھے۔ مشرق وسطیٰ سے وہ تمام لیڈران اور ممالک کی فوجی قوتیں فنا کی جا چکی تھیں جو اسرائیل کو فنا کرنے اور امریکہ سے لوہا لینے کی باتیں کر رہی تھیں ۔ صدر جمال عبدالناصر اور ان کے ہم نواؤں کے علاوہ سعودی عرب کے شاہ فیصل بھی راستے سے ہٹائے گئے۔ صورتحال ایسی بدلی کہ عرب ملکوں میں اسرائیل کو نیست و نابود کر دینے کا عزم رکھنے والی ایک طاقت یا مملکت بھی نہیں رہی۔ غزہ میں نسل کشی کے دوران بھی شام کے جولانی اسرائیل سے اپنی سرحدوں کی حفاظت کی ضمانت مانگتے رہے۔ ظاہر ہے انہوں نے اسرائیل کے تحفظ کا وعدہ بھی کیا ہوگا۔ لیکن عرب دنیا کے باہر ایران اسرائیل کو ختم کر دینے کے عزم کا اظہار کرتا رہا۔ ترکی جس کو مردِ بیمار کہا جاتا تھا نے کروٹ لی۔ طالبان نے بھی دنیا کو چونکایا اور روس، چین نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کامیاب صف بندی کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں گھبرا گئے اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستان، سعودی عرب، ترکی، قطر، متحدہ عرب امارات، اردن، مصر اور انڈونیشیا کے حکمرانوں سے ملنا طے کیا کہ انہیں بہلائیں ، پھسلائیں یا دھونس دیں کہ وہ مسلم ملکوں کی فوجوں کی متحدہ کمان بنانے سے باز رہیں ۔ ان حکمرانوں میں کم و بیش سبھی امریکہ کے حلیف سمجھے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ محمود عباس کو نہ بلایا جانا اس بات کا کھلا اشارہ ہے کہ امریکہ فلسطین کی قیادت کو بااختیار نہیں سمجھتا۔ جن ملکوں نے فلسطین کو تسلیم کیا ہے یا تسلیم کرنے کا اشارہ دیا ہے ان میں بھی بیشتر خصوصاً یورپی ممالک کا موقف یہ ہے کہ آزاد مملکت ِ فلسطین میں حماس کا کوئی کردار یا اختیار نہیں ہوگا مگر حقیقت یہ ہے اور دنیا بھی خوب سمجھتی ہے کہ اگر حماس نہ ہوتا تو مسئلۂ فلسطین ہمیشہ کے لئے سرد خانے میں ڈال دیا جاتا، جو سربراہانِ مملکت ٹرمپ سے ملے یا ملنے والے ہیں ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ الگ مملکت ِ فلسطین کے قیام کا اعلان کرو ورنہ ہمارا بھی وہی حشر ہوگا جو سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال کی حکومتوں کے ذمہ داروں کا ہوچکا ہے۔
اب دنیا کے انصاف پسند عوام و خواص کو سمجھنا چاہئے کہ امریکہ مسلم ملکوں کے سربراہوں سے بات کرنے پر اس لئے مجبور یا آمادہ ہوا ہے کہ ان کو اسرائیل کے خلاف متحدہ مزاحمت سے روک سکے۔ فلسطین کے قیام کے لئے یہ مزاحمت بہت ضروری ہے کیونکہ محض قرار داد پاس کرنے یا اعلان کرنے سے تو نیا ملک وجود میں آئے گا نہیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے قیام مملکت ِ فلسطین کی کوششیں بے کار ثابت ہوئی ہیں ۔ جس برطانیہ نے بلفور اعلانیہ کے ذریعہ قیام اسرائیل کی راہ ہموار کی تھی، وہ اب قیام مملکت ِ فلسطین کی بات کر رہا ہے۔
بھارت کی خارجہ پالیسی میں کافی تبدیلی ہوچکی تھی۔ ۲۰۱۷ء میں وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کے بعد بھارت اور اسرائیل کا زراعت، آب رسانی اور دفاعی امور میں تعاون بڑھا تھا۔ بھارت کئی موقعوں پر اقوام متحدہ میں ووٹ دینے سے بھی بچا تھا۔ ۱۲؍ جون کی قرار داد پر ووٹ دینے سے بچنے کے باعث بھی بھارت کی حزب اختلاف نے حکومت پر تنقید کی تھی جس کے باعث وزیر خارجہ کو صفائی دینی پڑی تھی کہ ان کی حکومت دو ریاستی حل کو تسلیم کرتی ہے حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اس نے اس معاملے میں اپنا رخ بدلا ہے۔ یہ سب سفارتی مہم کی کامیابی کے سبب ہوا ہے۔ اس کے باوجود مملکت ِ فلسطین کا قیام انصاف پرور ملکوں اور قوموں کی قوتِ مزاحمت پر منحصر ہے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں کسی ملک کا نہ رکنا اچھا تھا مگر اقوام متحدہ کے اراکین کے جذبات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ان کا مزاحمت کرنا بھی ضروری ہے۔