کرناٹک کے مہادیو پورہ کے بعد اب اسی ریاست کے شہر آلند کی انتخابی فہرست سے چھیڑ چھاڑ کی جو تفصیل، شواہد کے ساتھ، راہل گاندھی نے گزشتہ روز پیش کی، اُس سے چند باتیں اخذ کرتے ہی بنتی ہیں ۔
EPAPER
Updated: September 19, 2025, 2:28 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
کرناٹک کے مہادیو پورہ کے بعد اب اسی ریاست کے شہر آلند کی انتخابی فہرست سے چھیڑ چھاڑ کی جو تفصیل، شواہد کے ساتھ، راہل گاندھی نے گزشتہ روز پیش کی، اُس سے چند باتیں اخذ کرتے ہی بنتی ہیں ۔
کرناٹک کے مہادیو پورہ کے بعد اب اسی ریاست کے شہر آلند کی انتخابی فہرست سے چھیڑ چھاڑ کی جو تفصیل، شواہد کے ساتھ، راہل گاندھی نے گزشتہ روز پیش کی، اُس سے چند باتیں اخذ کرتے ہی بنتی ہیں ۔ پہلی بات یہ کہ کانگریس نے یہ سمجھ لیا کہ نہ تو بیانات دینا یا الزام لگانا ٹھیک ہے نہ ہی عوام سے فریاد کافی ہے۔ حکمراں جماعت کے دانت کھٹے کرنے، اُس کا مبینہ جھوٹ بے نقاب کرنے اور عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے ایسے حقائق اور شواہد کی ضرورت ہے جن کی تردید ممکن نہ ہو۔ اس کیلئے راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کے ماہرین کی ٹیم کتنی محنت کررہی ہے اس کی کوئی ٹھوس معلومات تو ہمیں نہیں ہے مگر راہل کی پیش کردہ تفصیل سے اس کا احساس ضرور ہوتا ہے، خواہ وہ مہا دیو پورہ کی تفصیل ہو جو انہوں نے ۷؍ اگست کو بیان کی یا آلند کی تفصیل ہو جو اُنہوں نے ۱۸؍ ستمبر کو پیش کی ۔
واصح رہے کہ راہل سیاسی الزام تراشی کے پھیر میں نہیں پڑے جیسا کہ ماضی میں کیا گیا تھا کہ کئی اپوزیشن پارٹیوں نے ای وی ایم پر سوال اُٹھایا تھا، معاملہ عدالت تک پہنچا تھا مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا۔ اس کے برخلاف راہل معتبر دستاویزی شواہد اور اعدادوشمار کے ساتھ منظر عام پر ہیں ۔ گزشتہ روز اُنہوں نے اس سلسلے میں کہا بھی کہ جب تک ۱۰۰؍ فیصد درست تفصیل اُن کے پاس نہیں ہوگی وہ پریس کانفرنس طلب کرکے ایک بھی انکشاف نہیں کرینگے۔ اس میں شک نہیں کہ اُن کی خود اعتمادی بھی کافی کچھ بیاں کررہی تھی مگر اس سے زیادہ اہم نپی تلی بات اور سلائڈس کی مدد سے حقائق کی رونمائی تھی۔ راہل نے یہ طریقہ اپنا کر جہاں حکمراں جماعت اور اتحاد پر سکتہ طاری کردیا، الیکشن کمیشن کو کٹہرے میں کھڑا کردیا کہ اب اسے بچاؤ کی راہ ملنا مشکل ہے اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے اپروچ سے متاثر کیا وہیں عوام کو بہت ٹھوس طریقے سے اعتماد میں لینے کا نسخہ آزمایا ہے۔
دوسری بات تکنیکی نوعیت کی ہے اور اس کا تعلق اُن کے اس انکشاف سے ہے کہ ووٹ کی چوری روایتی ڈھنگ سے نہیں ہوئی بلکہ مخصوص سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا جس کے ذریعہ جعلی ووٹروں کے نام خود کار طریقے سے شامل کئے گئے اور اتنے ہی خود کار طریقے سے بہتیرے ووٹرس کے نام حذف کئے گئے۔ چھتیس سیکنڈ میں ایک فارم بھرنے کی بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ اتنی دیر میں تو نام پتہ لکھنا بھی ناممکن ہے۔ اسی طرح ہر جگہ ’’سیریل نمبر وَن‘‘ لکھا ہونا وغیرہ کے ذریعہ اُن کے اس دعوے کو سمجھنا مشکل نہیں کہ یقیناً کسی تکنیکی میکانزم کو بروئے کار لایا گیا ہے جس کے ذریعہ اتنے سارے ووٹوں کی اس طرح ہیرا پھیری ممکن ہوئی کہ نہ تو نام ڈلیٹ کرنے والے کو خبر ہوئی نہ ہی جس کا نام ڈلیٹ کیا گیا اُسے علم ہوا۔
تیسری بات جو اس پوری مشق سے سمجھ میں آتی ہے، یہ ہے کہ ناموں کا شامل کیا جانا اور اُن کا حذف کیا جانا ایک منصوبہ بند عمل ہے جو الیکشن کمیشن کی شمولیت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔اسی لئے راہل نے بڑی جرأت سے چیف الیکشن کمشنر کا باقاعدہ نام لیا، بار بار لیا اور کہا کہ گیانیش کمار ووٹ چوروں کا دفاع کررہے ہیں ۔ راہل نے یہ بھی صاف کیا کہ وہ جمہوری عمل میں حصہ دار ہیں ، جمہوریت کے محافظ نہیں ، جس کیلئے آئینی ادارے موجود ہیں ۔ اس طرح اُنہوں نے آئینی و جمہوری اداروں کو اُن کی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے۔ کاش کہ اُن کی اتنی محنت ثمر بار ہو!