دنیا میں جہاں جہاں بھی جمہوریت قائم ہے وہاں وہاں ’’امراء شاہی‘‘ کا سایہ دراز ہو رہا ہے۔ امراء شاہی کو انگریزی میں ’’اولیگارکی‘‘ کہا جاتا ہے۔
دنیا میں جہاں جہاں بھی جمہوریت قائم ہے وہاں وہاں ’’امراء شاہی‘‘ کا سایہ دراز ہو رہا ہے۔ امراء شاہی کو انگریزی میں ’’اولیگارکی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اُردو میں اس کا کوئی موزوں متبادل ہمارے علم میں نہیں ہے۔ معنوی اعتبار سے جو اصطلاح ممکنہ طور پر ہو سکتی ہے، امراء شاہی ہے حالانکہ اس سے انگریزی اصطلاح کی کماحقہ ترجمانی نہیں ہوتی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کا استعمال سب سے پہلے ارسطو ؔنے کیا تھا جس کا مفہوم بدعنوانی اور ناانصافی پر مبنی چند امیروں اور رئیسوں کی حکومت تھا۔ انگریزی میں اولیگارکی کا معنی ہے وہ چند افراد جو اپنی دولت کے سبب حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوں یا حکومت سے اپنے موافق فیصلے کروائیں ۔ اردو میں اسے امراء شاہی لکھا جائے تو اس سے یہ تاثر ملے گا کہ طبقہ امراء کے تمام لوگ لازماً حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں ۔ عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ محض چند امراء، جو اُمراء میں سرفہرست ہوتے ہیں ، اپنے مفادات کی خاطر حکومت کو گویا کنٹرول کرتے ہیں ۔ اس کنٹرول کے عوض حکومت کرنے والی پارٹی یا حکومت میں شامل پارٹیوں کی مالی مدد کرتے ہیں ۔
ہمارے ملک میں دو صنعتکارو ں یا سرمایہ داروں پر حکومت سے غیر معمولی فائدہ اٹھانے کا الزام ہے۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کئی بار ان افراد کا نام لے کر مودی حکومت کو ہدف تنقید بنا چکے ہیں ۔ سابق صدرِ امریکہ جو بائیڈن نے الیکشن ہارنے کے بعد اپنے الوداعی خطاب میں امریکی عوام کو اولیگارکی کے خلاف متنبہ کیا تھا کہ اگر اس کو تقویت ملی تو جمہوریت خطرہ میں پڑ جائیگی۔ مگر اس کا نوٹس نہیں لیا گیا۔
موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ تشکیل دی تو ظاہر ہوگیا کہ بائیڈن کی نشان دہی غلط نہیں تھی۔ ٹرمپ نے ۱۳؍ ارب پتیوں کو کابینہ میں جگہ دی جن میں سب سے نمایاں نام ایلون مسک کا تھا جن کی مجموعی دولت ۴۰۰؍ بلین ڈالر کی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ایلون مسک نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کیلئے ۲۰۰؍ ملین ڈالر کی خطیر رقم لگائی تھی جو موجودہ شرحِ مبادلہ کے اعتبار سے ۱۸؍ ارب روپئے کے مساوی ہے۔ کیا مسک نے اتنی بڑی رقم کسی لالچ، مفاد یا منصوبہ بندی کے بغیر ٹرمپ کی کامیابی کیلئے صرف کردی؟ٹرمپ اُمراء شاہی (اولیگارکی) کو فروغ دے رہے ہیں ۔ امریکہ کے سنیٹر برنی سینڈرس نے ، جو حکومت کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک ہیں ، امیروں کے بہت زیادہ امیر ہوجانے کی حقیقت پر گرفت کی۔ یہ اُس وقت ہوا ہے جب ایلون مسک تاریخ میں پہلے صنعتکار بن گئے ہیں جس کے پاس ۷۵۰؍بلین ڈالر کی دولت ہے۔برنی سینڈرس کا کہنا تھا کہ ۲۰۲۵ء میں امریکہ کے ۱۰؍ ارب پتیوں کی دولت میں ۷۳۰؍ بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جبکہ لاکھوں امریکی شہریوں کی اتنی بھی آمدنی نہیں ہے کہ بنیادی ضرورتیں پوری کرسکیں ۔سینڈرس کے مطابق ’’آمدنی کا یہ تفاوت یافرق ہمارے عہد کا معاشی بحران ہے۔‘‘
’’دی سینٹر فار دی اسٹڈی آف اولیگارکس‘‘ کے مطابق: ’’دوسری جنگ عظیم کے بعد ۱۹۸۵ء وہ پہلا سال تھا جب اُمراء شاہی کا رجحان توانا ہوا، بہت سے ملکوں میں امیر ترین لوگوں کے ساتھ متعلقہ حکومتوں کا اور متعلقہ حکومتوں کے ساتھ وہاں کے امیر ترین لوگوں کا ربط ضبط اور ساز باز بڑھنے لگی۔ مذکورہ سینٹر کا کہنا ہے کہ ’’اولیگارکس معاشی اور سیاسی کھلاڑی ہیں جو یا تو دولت حاصل کرتے ہیں یا اقتدار سے قربت۔ ان میں سے ایک حاصل ہوجائے تو دوسرے کا حصول مشکل نہیں رہ جاتا۔‘‘ اس قسم کے لوگ ماضی میں بھی رہے ہیں مگر جاری عہد میں اُن کا اثرورسوخ بڑھ گیا ہے۔