۵۵؍ سالہ گیتا چاؤلہ چاہتی تھیں کہ موت کے بعد ان کے اعضا عطیہ کئے جائیں لیکن کچھ صورتحال میںیہ ممکن نہیںہوتا ،ایک جدید تکنیک کی مدد سےتقریباً۴؍ گھنٹے تک ان کے جسم میںخون کی گردش بحال کی گئی اورجگر اورگردے عطیہ کے قابل بنائے گئے۔
منی پال ا سپتال میں اس جدید تکنیک کا تجربہ کیاگیا۔ تصویر: آئی این این
۵؍نومبر کو۵۵؍ سالہ گیتا چاؤلہ کو نئی دہلی کے منی پال اسپتال لایا گیا۔ وہ موٹر نیورون بیماری کی وجہ سے بستر پر تھیں ۔سانس لینےمیں تکلیف بڑھنے کی وجہ سے ان کے گھروالوں نے ان کےسابقہ فیصلے کا احترام کرتے ہوئے لائف سپورٹ بند کرنے کا مشکل فیصلہ کیا کیونکہ گیتا ہمیشہ چاہتی تھیں کہ ان کے اعضاء ان کی موت کے بعد عطیہ کیے جائیں۔گیتا کا انتقال۶؍نومبر کی رات۸؍ بجکر۴۳؍منٹ پر ہوا تھا ۔ اس کے دل کی دھڑکن بند ہونے کے بعد ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا اور اس کا ای سی جی پانچ منٹ تک فلیٹ رہا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بے مثال تھا۔چند منٹوں میں ڈاکٹروں کی ایک بڑی ٹیم حرکت میں آگئی۔ ایک ای سی ایم اومشین کا استعمال کرتے ہوئے، انہوں نے نارموتھرمک ریجنل پرفیوژن (این آر پی) تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اس کے پیٹ کے حصے میں خون کا بہاؤ بحال کیا، جس سے صرف جگر اور گردے جیسے اعضاء باقی جسم میں خون پھیلے بغیر کام کرتے رہے۔
اس کی موت کے بعد تقریباً چار گھنٹے تک خون کے بہاؤ کی بحالی نے صرف اس کے جگر اور گردے کو اتنے وقت تک زندہ رکھا کہ اسے نکال کر ضرورت مند مریضوں کواین او ٹی ٹی او کے ذریعے انہیں نکال کر کسی ضرورت مندکو عطیہ کیا جا سکے۔ اس کے جگر کو دہلی کے آئی ایل بی ایس میں ایک ۴۸؍ سالہ مریض میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا تھا اور دونوں گردے دہلی کے میکس اسپتال، ساکیت میں بھی دو مریضوں کی جان بچانے میں کام آئے۔ اس کی آنکھیں اور جلد بھی عطیہ کی گئی جس سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہوا۔
ڈاکٹر شریکانت سری نواسن نے اس واقعہ کو تاریخی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں زیادہ تر اعضاء کا عطیہ دماغ کی موت کے دوران ہوتا ہے جب دل اب بھی دھڑک رہا ہوتا ہے۔ تاہم گردشی(سرکولیٹری) موت میں دل کے رکتے ہی اعضاء کو خون کی فراہمی بند ہو جاتی ہے اور وقت بہت محدود ہوتا ہے۔ این آر پی تکنیک سے یہ وقت بڑھا دیاجاتا ہے جس سے ٹیموں کو اعضاء نکالنے، میچ ڈھونڈنے اور ٹرانسپلانٹ کے لیے قیمتی وقت مل گیا ۔
ڈاکٹر (کرنل) اونیش سیٹھ نے بتایا کہ ۲۰۲۴ء میں ہندوستان میں ۱۱۲۸؍دماغی طورپر مردہ قرار دئیے گئےافراد نے اپنےاعضاء عطیہ کئے جو دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ تاہم، بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر، سرکولیٹری موت سے عطیات میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ این آر پی پر قومی کنسورشیم نے جو پچھلے سال تشکیل دیا گیا تھا، ہندوستان کے لیے ایک کم لاگت کا ہائبرڈ ای سی ایم اوتیار کیا ہے۔ایشیا کا پہلا این آر پی یہ ثابت کرتا ہےکہ لبلبہ، پھیپھڑے اور دل جیسے اعضاء بھی اس طریقے سےنکالے جا سکتے ہیں۔
ہندوستان میں اعضاء کے عطیات کی ضرورت اور دستیابی کے درمیان کافی فرق ہے۔ ہر سال ایک لاکھ ۸۰؍ ہزار افراد گردے کی خرابی کا شکار ہوتے ہیں، اس کے باوجود۲۰۲۳ء میں صرف ۱۳۴۲۶؍گردوں کی پیوند کاری کی گئی۔ جگر کی پیوند کاری کی ضرورت ۳۰؍ ہز ارہے لیکن صرف۴۴۹۱؍کیسوں میں یہ پیوندکاری کی گئی ہے ۔ گزشتہ سال۲۲۱؍ ہارٹ ٹرانسپلانٹ اور۲۵؍ ہزار کارنیا ٹرانسپلانٹ ہوئے جبکہ ضرورت ایک لاکھ ہے۔گیتا چاؤلہ کی سخاوت اور ڈاکٹروں کی یہ اختراعی کوشش ہندوستان میں اعضاء کے عطیہ کے منظر نامے کو تبدیل کرنے میں ایک بڑا قدم ہے۔
(بشکریہ انڈیا ٹوڈے)