حج کمیٹی آف انڈیا کی جانب سے اس سال یعنی حج ۲۰۲۶ء کی عرضی دینے کیلئے کچھ زیادہ ہی عجلت کی گئی ہے۔ ابھی ۲۰۲۵ء کے حجاج کی وطن واپسی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ آئندہ سال کیلئے فارم بھرنے کا اعلان کردیا گیا۔ اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا ۔
EPAPER
Updated: August 08, 2025, 1:43 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
حج کمیٹی آف انڈیا کی جانب سے اس سال یعنی حج ۲۰۲۶ء کی عرضی دینے کیلئے کچھ زیادہ ہی عجلت کی گئی ہے۔ ابھی ۲۰۲۵ء کے حجاج کی وطن واپسی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ آئندہ سال کیلئے فارم بھرنے کا اعلان کردیا گیا۔ اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا ۔
حج کمیٹی آف انڈیا کی جانب سے اس سال یعنی حج ۲۰۲۶ء کی عرضی دینے کیلئے کچھ زیادہ ہی عجلت کی گئی ہے۔ ابھی ۲۰۲۵ء کے حجاج کی وطن واپسی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ آئندہ سال کیلئے فارم بھرنے کا اعلان کردیا گیا۔ اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ ہمیشہ حج سے واپسی کے بعد جائزہ لیا جاتا تھا کہ حجاج کو سہولت فراہم کرانے میں کیا بہتر کیا گیا اور کہاں کمی رہ گئی۔ حجاج کو اگر کوئی سہولت نہیں مل سکی جس کا ان سے چارج لیا گیا تھا یا کسی عازم نے کسی معقول وجہ سے حج کا ارادہ ترک کردیا تھا تو اس کی رقم لوٹانے کاعمل شروع ہوتا تھا۔ اتنا ہی نہیں ایک جائزہ کانفرنس بھی منعقد کی جاتی تھی۔ ا س دفعہ ان مراحل کومؤخر کرکے حج ۲۰۲۶ء کے فارم بھرنے کا اعلان کردیا گیا جبکہ اب تک کی روایت یہ تھی کہ حجاج کرام کی واپسی کے دو ڈھائی یا تین ماہ بعد نئے سال کا فارم جاری کیا جاتا تھا۔
حج کمیٹی کی اس عجلت سے عازمین کوپریشانی نہ ہو ایسا نہیں ہوسکتا۔ سمجھا جاسکتا ہے کہ کئی عازمین کے پاسپورٹ کا مسئلہ ہوتا ہے۔ جلدپاسپورٹ کا بننا اتنا آسان نہیں ہوتا، اپلائی کرنے پر کم ازکم ایک ماہ بعد کا اپوائنمنٹ ملتا ہے، اس کے بعد آگے کی کارروائی شروع کی جاتی ہے جس کی تکمیل کے بعد پاسپورٹ ملتا ہے۔ اسی طرح اخراجات کا انتظام کرنا ہوتا ہے مگر سب کچھ اتنی جلدی کروایا جارہا ہے کہ خدانخواستہ عازمین کا ایک بڑا طبقہ عرضی دینے ہی سے محروم رہ سکتا ہے۔
کہنے کی ضرورت نہیں کہ سفر حج کیلئے خاصا خرچ درکار ہوتا ہے۔ اگر ایک کنبے کے چار افراد حج کا ارادہ رکھتے ہیں تو حج کمیٹی میں ان کو (ممبئی والوں کو) ۱۳۔ ۱۴؍لاکھ روپے تک دینے ہونگے اور اگر خرچ بڑھ گیا یعنی سفرِحج اور بھی مہنگا ہوا تو مزید رقم اداکرنی ہوگی۔ مقررہ وقت پر یہ رقم جمع کرانا بھی ہر ایک کیلئے آسان نہیں ہے۔ خاص طو رپر ایسی صورت میں جب کہ جلد درخواست دینی ہے یعنی تمام مطلوبہ رقم جلد جمع کرانی ہے۔ عازمین کےلئے یہ دوسری بڑی دشواری ہے۔
واضح رہے کہ عاز مین ِ حج ممکنہ طور پر اپریل یعنی ۹؍ماہ بعد روانہ ہونگے۔ بھلے ہی مکمل رقم دو تین قسطوں میں ادا کرنی ہوگی مگر تب بھی وقفہ تو بہرحال کم ہوجائیگا۔ اس کا کیا جواز ہے؟کیا یہ اس لئے ہے کہ عازمین کوکوئی خاص سہولت دی جانی ہے؟ خرچ میں کمی ہوگی جس سے ان کا بوجھ کم ہوگا؟ یا پھرکوئی ایسی راحت دی جائیگی جو اَب تک نہیں دی گئی تھی؟ اگر ایسا کچھ نہیں ہے، کیونکہ اب تک نظر نہیں آرہا ہے، تو پھر اس جلد بازی کا سبب کیا اور اس کا حاصل کیا ہے؟ گزشتہ سال ٹورآپریٹرز کیساتھ جو کچھ ہوا اُس کا زیر بحث موضوع سے تعلق نہیں ہے مگر حج کمیٹی کی تعجیل کے سبب یاد آتا ہے کہ ان کا ۸۰؍ فیصد سے زائدکوٹہ کاٹ دیا گیا اور ان کی جمع شدہ بڑی رقم پھنس گئی جبکہ اُنہوں نے تمام تقاضے وقت پر پورے کردیئے گئے تھے!
حج کمیٹی کا کہنا ہے کہ عجلت سعودی حکومت کی جانب سے کی جارہی ہے ۔ اگر ایسا ہے تویہ بتایا جانا چاہئے کہ سعودی حکومت کی مقرر کردہ ڈیڈ لائن کیا ہے؟ اور کب تک تمام امور مکمل کرنے ہیں ؟ یہ واضح کیا جائے تو عازمین کو اپنے سوالوں کا جواب مل جائیگا اور ان کو اطمینان ہوسکے گا۔ حج کمیٹی کے قیام کا بنیادی مقصد حجاج کی فلاح وبہبو داور حج کے انتظامات میں لازمی سہولتوں کی فراہمی اور ضروری رہنمائی ہے تاکہ وہ اس فریضے کو بحسن وخوبی انجام دے سکیں ۔ کیا حج کمیٹی اپنے قیام کا مقصد پورا کرنے میں کامیاب ہے؟ اگر نہیں تو کیا اسے احتساب کی ضرورت نہیں ہے؟