حالات بدل کر بھی نہیں بدلتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان بہت سی تبدیلیوں کو قبول نہیں کر پاتا یا قبول کرنا نہیں چاہتا مگر بعض تبدیلیاں اس کے اختیار کے باہر ہوتی ہیں۔ دانشمندی یہ ہے کہ انسان مثبت تبدیلیوں کو قبول کرے اور منفی تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت سے منہ نہ موڑے۔
نئی دہلی کا جی سیون کانفرنس میں مدعو کیا جانا اچھی خبر ہے۔ اتنی تاخیر سے کیوں دعوت دی گئی یہ اہم سوال تھا مگر مدعو کرلئے جانے کے بعد یہ ضروری نہیں رہ گیا ہے۔ اس سلسلے میں کینیڈا سے ہمارے رشتوں کی بابت سوال کیا جارہا تھا۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جی سیون میں ڈونالڈ ٹرمپ بھی ہوں گے جو ان دنوں ہند مخالف رویہ اپنائے ہوئے ہیں ، ایسے میں وزیراعظم مودی نہیں چاہیں گے کہ ان کا سامنا ہو۔ یہ ایسی قیاس آرائی ہے جو فطری ہے اور ہوتی رہتی ہے۔ آئندہ کبھی ایسا ہوا اور کسی اہم کانفرنس میں ہندوستان کو مدعو نہیں کیا گیا تو آئندہ بھی ہوں گی۔
ممکن تھا کہ قیاس آرائیوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا مگر دعوت آگئی تو سمجھئے عداوت ختم ہوگئی۔ اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے ہندوستان کے مدعو کئے جانے کی یہ کہتے ہوئے دلیل بھی دی کہ ہندوستان پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے، سب سے زیادہ آبادی کا ملک ہے اور سپلائی چین (نظام تقسیم کاری) میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ بقول مارک کارنی چند ممالک ایسے ہیں جن کا اہم عالمی موضوعات پر گفتگو کے دوران شامل کیا جانا ضروری ہے، ہندوستان ان میں سے ایک ہے۔
یہ ہندوستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے مگر چند دیگر معاملات ایسے ہیں جو ہماری سفارتی اہمیت اور اثر و رسوخ پر سوال اٹھاتے ہیں ۔ ان میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ ٹرمپ کیوں بلائے جاں بنے ہوئے ہیں اور ان کی مخالفت کو کم کرنے کیلئے ہماری حکومت کیا کررہی ہے۔ اس سے ملتا جلتا سوال یہ ہے کہ اگر وہ وزیراعظم مودی کو دوست کہنے کے باوجود دوست جیسا رویہ ختم کر چکے ہیں تو اس کیلئے ہماری حکمت عملی کیا ہے اور اگر وہ ہندوستان کے مفادات پر ضرب لگانے پر تلے ہوئے ہیں تو ہم کب تک سخت موقف اختیار کرنے یا ان کی باتوں کا دوٹوک جواب دینے سے گریز کرتے رہیں گے؟
ٹرمپ کیا چاہتے ہیں یہ مخفی نہیں رہ گیا ہے مگر نئی دہلی، دیگر ملکوں سے تعلقات یا الگ الگ ملکوں کی تنظیموں کی رکنیت کیلئے امریکہ کی پسند ناپسند یا مرضی پر انحصار کیسے کرسکتا ہے؟ اگر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ہندوستان’’برکس‘‘ سے دور رہے تو یہ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ روس سے تیل لینا بند کیا جائے تو ہمیں یہ سمجھانا ہوگا کہ جناب عالی آپ کے کہنے سے تو ایسا نہیں ہوگا؟ ٹرمپ نے اب تک کم و بیش ایک درجن مرتبہ کہا کہ انہوں نے پہلگام سانحہ کے بعد چھڑنے والی ہند پاک جنگ رکوائی۔ وہ یہ بات ایک عرضداشت میں لکھ کر بھی دے چکے ہیں ۔ اس پر استفسار تو کرنا ہی پڑے گا کہ وہ کیوں ایسا کہہ رہے ہیں ؟ اگر اس معاملے میں ہم خاموش ہی رہے تو یہ بات اعتراف کے ضمن میں آئے گی کہ ہم نے ان کی مداخلت قبول کرلی۔ کیا کہتی ہے ہماری سفارت اس معاملے میں ؟ کیا ہم ٹرمپ سے کہیں گے کہ وہ ایسی بیان بازی سے گریز کریں ؟ یہ بات اب تک تو کہہ دی جانی چاہئے تھی!
ہماری سفارت کو چین کی سرگرمیوں پر بھی نگاہ رکھنی چاہئے جس نے نہ تو پہلگام سانحہ کی مذمت کی نہ ہی پاکستان کی مدد سے خود کو باز رکھ سکا۔ ہماری سفارت کو روس کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہئے جو کھل کر ہندوستان کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ اس طرح فہرست بنائیں تو سفارتی کام بہت ہے اور دن بہ دن بڑھ رہا ہے، پارلیمانی وفود کے دوروں سے بہت تھوڑا کام ہو پایا ہے۔