بہار کس طرف جارہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اُسی طرف جارہا ہے جس طرف جانا چاہئے مگر انتخابی فہرست کی مبینہ دھاندلیوں کے سبب کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کس طرف جارہا ہے۔ آخر مدھیہ پردیش کس طرف گیا؟ ہریانہ کس طرف گیا؟ مہاراشٹر کس طرف گیا؟ ا
بہار کس طرف جارہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اُسی طرف جارہا ہے جس طرف جانا چاہئے مگر انتخابی فہرست کی مبینہ دھاندلیوں کے سبب کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کس طرف جارہا ہے۔ آخر مدھیہ پردیش کس طرف گیا؟ ہریانہ کس طرف گیا؟ مہاراشٹر کس طرف گیا؟ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے بدھ، ۵؍ نومبر ۲۵ء کو ہریانہ کی ووٹنگ لسٹ سے متعلق جو انکشافات کئے اُس کے بعد تو ذہن جیسے ماؤف ہوگیا ہے۔ راہل نے اپنی پریس کانفرنس کے اختتام پر یہ اشارہ بھی دیا کہ جو انکشافات ہریانہ کے بارے میں کئے گئے ہیں ممکن ہے بہار الیکشن کے بعد ایسے ہی انکشافات بہار کی ووٹر لسٹ کے بارے میں کرنے پڑیں ۔ اس لئے کچھ بھی کہنا مشکل ہے کہ ہوا کا رُخ کیا ہے اور بہار کس طرف جارہا ہے۔
ہوا کے اِس رُخ سے بچنے کے دو ہی راستے ہیں ۔ اول یہ کہ ووٹنگ اتنی ہو کہ اضافہ شدہ ووٹوں پر سبقت حاصل کرلیں ۔ پہلے مرحلے کی پولنگ ریکارڈ توڑ بتائی گئی ہے۔ مگر معاملہ ۶۵؍ فیصد پر کیوں رُکا؟ یہ کسی بھی سابقہ ووٹنگ فیصد سے زیادہ ہے مگر، ہم بھی اس کی تعریف کرتے اگر یہ ۷۰۔۷۲؍ فیصد تک پہنچتا۔ اگر اُن انتخابی حلقوں سے ملنے والی شکایات کو پیش نظر رکھیں جہاں اولین مرحلے کی پولنگ ہوئی ہے تو بجلی گل ہونا اور اس کی وجہ سے ووٹنگ کی رفتار کا مدھم ہوجانا ، پولنگ بوتھ پر ووٹر کے پہنچنے سے پہلے اُسے خبردار کیا جانا کہ اُس کا ووٹ پڑ چکا ہے وغیرہ پر یقین کریں تو لگتا ہے کہ ووٹنگ کا مجموعی فیصد ۷۰۔۷۲؍ ہوجاتا اگر یہ سب نہ ہوتا۔
اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا تو پہلے مرحلے میں پولنگ کرنے والے حلقوں سے موصولہ اطلاعات میں اطمینان بخش نتیجہ پوشیدہ ہے مگر این ڈی اے میں شامل بی جے پی کا اطمینان بھی کوئی چیز ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے اکثریت حاصل کرنے کی صورت میں نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنانے کا اعلان نہ کرنے کے باوجود اگر اُسے اپنی کامیابی کا یقین ہے تو اس یقین کے آگے انتخابی حلقوں سے اچھی خبریں ملنے کا اطمینان کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ہریانہ کی ووٹر لسٹ میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں پر الیکشن کمیشن کا خاموش رہنا اور کوئی جواب نہ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر آئندہ بھی کسی بے ضابطگی کی طرف اشارہ کیا گیا تو الیکشن کمیشن خاموش رہ کر اپنا کام کرتا رہے گا اور انتخابی نتائج متاثر ہوتے رہیں گے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ الیکشن کمیشن ایک ایک الزام کا جواب دیتا اور اُس الزام کی دھجیاں اُڑا دیتا مگر اُس نے خاموش رہ کر ہر الزام کو کوڑا دان میں ڈالنے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اُس سے انتخابی عمل میں اصلاح کے آثار دکھائی نہیں دیتے اور ووٹ کے ذریعہ عوامی احساسات و جذبات کی ترجمانی کا عمل ساقط ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ جمہوریت کیلئے نہایت خطرناک صورت حال ہے۔
اس لئے ہم بہار کے انتخابی حالات پر ہماری نظر تو ہوگی مگر ہم نتیجہ پر جست لگانا نہیں چاہیں گے۔ نتیجہ اُسی کو مان کر چلنا چاہئے جو ۱۴؍ نومبر کو منظر عام پر آئے گا۔ موجودہ حالات میں قیاس سے بہتر آس ہے، بہتری کی آس اور صحیح معنوں میں اچھے دن کی آس۔ سنا جارہا ہے کہ نتیش کمار کی پارٹی کے حامی ’’دانشمندانہ‘‘ ووٹنگ کررہے ہیں مگر اس کی کیا ضمانت ہے کہ نتائج کے بعد نتیش کمار بھی دانشمندانہ فیصلے کرینگے؟ یہ سب نتیش ہی کا تو کیا دھرا ہے۔ انہوں نے ۱۷؍ مہینے کی مہا گٹھ بندھن سرکار سے علاحدگی اختیار نہ کی ہوتی تو اِس وقت صورت حال ہی دوسری ہوتی۔