• Thu, 06 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار انتخابی تاریخ میں نیا باب لکھے گا؟

Updated: November 06, 2025, 4:41 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai

بہاراسمبلی انتخاب کا نتیجہ۱۴؍ نومبر کو آجائے گا۔اب تک تمام سیاسی مبصرین اور ریاست کے انتخابی عمل پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ یہ انتخاب نہ صرف بہار کی سیاست کے لئے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس کے نتائج سے قومی سیاست بھی متاثر ہوگی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
 بہار قانون ساز اسمبلی انتخاب اپنے آخری دور میں ہے ۔ پہلے مرحلے کی پولنگ ۶؍نومبر کو ہو جائے گی اور دوسرے مرحلے کی پولنگ ۱۱؍ نومبر کو ہے اور نتیجہ۱۴؍ نومبر کو آجائے گا۔اب تک تمام سیاسی مبصرین اور ریاست کے انتخابی عمل پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ یہ انتخاب نہ صرف بہار کی سیاست کے لئے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس کے نتائج سے قومی سیاست بھی متاثر ہوگی اور بالخصوص مغربی بنگال، پنجاب اور آسام میں جو انتخابات ہونے والے ہیں اس کے سمت بھی متعین ہوں گے ۔ظاہر ہے کہ اس وقت ملک میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ہے لیکن ریاست بہار میں اس کی زمین اتنی مستحکم نہیں ہے کہ وہ تن تنہا میدان میں اترسکے لہٰذاگزشتہ دو دہائیوں سے وہ جنتا دل متحدہ کے ساتھ اقتدار میں ہے اور اس بار بھی وہ نتیش کمار کی قیادت میں ہی انتخابی میدان میں ہے لیکن اس بار انتخابی عمل کے آغاز سے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی اور جنتا دل متحدہ کے درمیان کچھ اس طرح کی رسّہ کشی ظاہر ہوتی رہی ہے جس سے یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے کہ اگرچہ قومی جمہوری اتحاد میں سیٹوں کی تقسیم کا مسئلہ تو قدرے آسانی سے طے ہوگیا لیکن وزیر اعلیٰ کے نام پر ہنوز کشمکش جاری ہے ۔ گزشتہ دن قومی جمہوری اتحاد کا انتخابی منشور جاری ہوا اور محض دس پندرہ منٹ میں یہ تقریب ختم ہوگئی اور اس میں بھی وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی موجودگی ایک منٹ سے بھی کم رہی اور انہوں نے این ڈی اے کے انتخابی منشور جسے ’’سنکلپ پتر‘‘ کہا گیاہے اس پر کچھ بھی کہنے سے گریز کرتے ہوئے چلے گئے اور بھاجپا کے سمراٹ چودھری جو اس وقت نائب وزیر اعلیٰ ہیں وہ بھی اس منشور پر کوئی مثبت بیان نہیں دے سکے کیوں کہ اس موقع پر پریس کانفرنس نہیں ہو سکی۔وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست کی راجدھانی پٹنہ میں تقریباً تین کلو میٹر تک بروز اتوار روڈ شو کیا اس میں بھی وزیراعلیٰ نتیش کمار شامل نہیں ہوئے بلکہ للن سنگھ جو نریندر مودی کابینہ میں شامل ہیں، وہ ان کے ساتھ رہے ۔درحقیقت اندرونی طورپر کچھ اس طرح کی سیاسی کھچڑی پک رہی ہے جس کی خبر نتیش کمار کو ہے کہ کس طرح ان کے سیاسی قد کو چھوٹا کرنے کی سازش چل رہی ہے ۔ امیت شاہ نے تو سمراٹ چودھری کے حلقے میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک طرح سے یہ وضاحت کردی کہ نریندر مودی سمراٹ چودھری کو ایک بڑا تحفہ دینے والے ہیں۔نتیش کمار کے حامیوں کا موقف ہے کہ امیت شاہ کا اشارہ سمراٹ چودھری کو وزیر اعلیٰ بنانے کا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت ریاست میں قومی جمہوری اتحاد ہو کہ مہا گٹھ بندھن ، دونوں اتحادیوں کی نظر انتہائی پسماندہ طبقے پر ہے ۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال ریاست میں ذات شماری نے اس حقیقت کو عام کردیا ہے کہ ریاست میں تقریباً ۳۶؍ فیصد انتہائی پسماندہ طبقے کے افراد ہیں اس لئے دونوں اتحادی ٹکٹ تقسیم سے لے کر دیگر مراعات میں بھی انتہائی پسماندہ طبقے کو اولیت دے رہے ہیں۔مہا گٹھ بندھن نے وکاس شیل انسان پارٹی کے سپریمو مکیش سہنی کو نائب وزیر اعلیٰ کاچہرہ اس لئے اعلان کیاہے کہ اس کا بھی تعلق انتہائی پسماندہ طبقے سے ہے ۔ اگرچہ جس ذات ملّاح سے اس کا تعلق ہے اس کی آبادی ریاست میں محض ڈھائی فیصد ہے اور نریندر مودی کابینہ سے لے کر بہار میں نتیش کابینہ میں اس ذات کے کئی وزراء شامل ہیں۔لیکن پھر بھی مہا گٹھ بندھن نے مکیش سہنی اور آئی پی گپتا کو اس لئے گٹھ بندھن میں شامل رکھا ہے کہ انتہائی پسماندہ طبقے میں اس کی رسائی مستحکم ہو سکے۔ مہا گٹھ بندھن کے لئے اس کا یہ نعرہ کہ ریاست میں روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں گے اور اس کے لئے صنعت کو فروغ دیا جائے گا ، ساتھ ہی ساتھ ہر ایک خاندان کے ایک فرد کو نوکری دی جائے گی ، انتخابی ماحول سازی میں معاون ثابت ہو رہاہے جب کہ این ڈی اے کے لئے اس طرح کے نعرے اس لئے بے سود ثابت ہو رہے ہیں کہ ریاست میں بیس برسوں سے نتیش کمار کی قیادت والی حکومت ہے اس لئے اب بھاجپا کی طرف سے جذباتی استحصال کی سیاست شروع ہوگئی ہے ۔ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے لیڈر کی انٹری ہو چکی ہے اور وہ حسب روایت مسلم مخالف بیان بازی کر رہے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ اس طرح کے نعروں کے اثرات اب تک بے اثر ہی ثابت ہورہے ہیں ، بہار میں عوام اپنے زمینی مسائل اور بالخصوص روزگار کے تئیں سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔ اس لئے مہا گٹھ بندھن کو امید بھی ہے کہ اقتدار میں تبدیلی ہو کر رہے گی مگر قومی جمہوری اتحاد نے جس طرح کی شطرنج کی بساط بچھا رکھی ہے اس کا مقابلہ کرنے میں اگر دیگر سیاسی جماعتیں کامیاب رہیں اور طرح طرح کی سازش کو ناکام کر سکیں تو پھر نتیجہ بہت ہی چونکانے والا ہو سکتاہے۔نتیش کمار اپنے ہر ایک انتخابی جلسوں میں خواتین ووٹروں کو قدرے زیادہ مخاطب بھی کر رہے ہیں اور ان کیلئے اب تک انہو ںنے جو کچھ کیاہے اس کی دہائی بھی دے رہے ہیں۔ بالخصوص حال میں خواتین کے کھاتوں میں دس ہزار کی رقم بھیجنے اور لاکھ پتی دیدی بنانے کو وہ ایک بڑا تُرپ کا پتّہ سمجھ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ دو اسمبلی انتخاب میں خواتین کے ووٹروں کاپولنگ فیصد مرد ووٹروں سے زیادہ رہاہے۔اس لئے ریاست کے بیرونی صحافیوں اور سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ نتیش کمار کے خلاف جس قدر اینٹی انکمبیسی ہونی چاہئے وہ نظر نہیں آتی مگر زمینی حقیقت کچھ اورہے کہ نریندر مودی اور نتیش کمار کے جلسوں میں شامل ہونے والی خواتین بھی روزگار کی بات کہہ رہی ہیں اور مہا گٹھ بندھن کو امید کی کرن سمجھ رہی ہیں کہ انہوںنے بھی ’’مائی بہن اسکیم‘‘ اور آنگن باڑی دیدیوں کو تیس ہزار ماہانہ دینے کی بات کہی ہے ۔
مختصر یہ کہ بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج صرف چونکانے والے نہیں ہوں گے بلکہ اقتدار کی تبدیلی کے امکانات اور انتخابی تاریخ میں ایک نیا باب بھی رقم کریں گے ۔جس طرح کی فضا پروان چڑھ رہی ہے وہ بر قرار رہے اور سیدھے مقابلے کے راستے میں کوئی بڑی دیوار کھڑی نہ ہو کیونکہ اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کہیں کہیں جن سوراج اور دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے بھی دونوں اتحادیوںکیلئے مشکل پیدا کر رکھی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آخری دن تک وہ اپنی قوت کو بر قرار رکھ پائیں گے یہ کہنا مشکل ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK