• Sat, 04 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

چین پر ہماری برتری کیسے ہو؟

Updated: October 04, 2025, 1:32 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

چینی صدر سے ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کی قربت یا چین سے ہمارے تجارتی تعلقات، جن میں درآمدات زیادہ ہیں اور برآمدات کم اور ایسی ہی دیگر متعدد باتوں سے قطع نظر، جس ایک سوال کا جواب ہم تمام ہندوستانیوں کو تلاش کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہمارے اس پڑوسی کی ترقیاتی رفتار غیر معمولی کیوں ہے اور اگر ہم ایسی ترقیاتی رفتار چاہتے ہیں تو کون سے اقدامات ضروری ہیں ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 چینی صدر سے ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کی قربت یا چین سے ہمارے تجارتی تعلقات، جن میں  درآمدات زیادہ ہیں  اور برآمدات کم اور ایسی ہی دیگر متعدد باتوں  سے قطع نظر، جس ایک سوال کا جواب ہم تمام ہندوستانیوں  کو تلاش کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہمارے اس پڑوسی کی ترقیاتی رفتار غیر معمولی کیوں  ہے اور اگر ہم ایسی ترقیاتی رفتار چاہتے ہیں  تو کون سے اقدامات ضروری ہیں ۔
 چین کی ترقیاتی معرکہ آرائیوں  کی پچاسوں  مثالوں  میں  سب سے تازہ یہ ہے کہ چینی حکومت نے ایک نئے پُل کا افتتاح کیا ہے جو پہاڑوں  کے درمیان سے گزرتا ہے اور جسے دُنیا کے سب سے اونچے پل کا اعزاز و امتیاز حاصل ہوگیا ہے۔ اس کا نام ہے ’’ہواجیانگ پُل‘‘۔ یہی اہم نہیں  کہ یہ پہاڑوں  کے بیچ سے گزرنے والا دُنیا کا سب سے اونچا پل ہے بلکہ اہم یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ دو گھنٹے کا سفر دو منٹ میں  طے کیا جاسکے گا۔ جی ہاں ، آپ نے صحیح پڑھا: دو گھنٹے کی مسافت صرف دو منٹ میں  طے کرنا ممکن بنا لیا گیا ہے۔ کیا یہ قابل رشک ترقی نہیں  ہے؟ چینی خبر رساں  ایجنسی ژنہوا کی مانیں  تو اس کا کہنا ہے کہ دُنیا کے ۱۰۰؍ بلند ترین پُلوں  میں  سے ۵۰؍ چین کے اسی صوبے میں  ہیں  جس میں  ہواجیانگ تعمیر کیا گیا ہے۔
 آپ جانتے ہیں  کہ کووڈ کے دَور میں  کم سے کم مدت میں  اسپتال کی عمارت تعمیر کرلینے میں  چینیوں  نے کامیابی حاصل کرلی تھی۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں  کہ اِس وقت دُنیا کی بڑی طاقتیں  چین سے یا تو خوفزدہ ہیں  یا اُس سے بہتر تعلقات کی خواہشمند ہیں ۔ جو خوفزدہ ہیں  وہ بھی کہیں  نہ کہیں  یہ تمنا رکھتے ہیں  کہ اُنہیں  بھی چین جیسی تیز رفتار ترقی سے استفادہ کرنا چاہئے یا بیجنگ سے معاشی تعلقات استوار رکھنا چاہئے۔ ایسا کیوں  ہے؟اس لئے کہ چین اسپتال یا برج بنانے ہی میں  مہارت نہیں  رکھتا، وہ دُنیا کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سی بڑی مصنوع سازی میں  ید طولیٰ رکھتا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیزو ں میں  اگر سوئی، چمچہ، بٹوہ یا کھلونے کو شمار کریں  تو بڑی سے بڑی چیز میں  بلاشبہ نئی ٹیکنالوجی کا ذکر ہوگا جس میں  ترقی یافتہ ممالک سے چین کا ہاتھ پکڑتے نہیں  بن رہا ہے۔ جن شعبہ جات میں  اس نے قابل رشک ترقی کرلی ہے اُن میں  سب سے اہم ہے کوینٹم کمپیوٹنگ۔
  یہ ایسی خصوصی ہارڈ ویئر ٹیکنالوجی ہے جس کے سبب کمپیوٹنگ مشینوں  میں  عام کمپیوٹروں  سے کئی گنا طاقت اور صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ کوینٹم کمپیوٹنگ جس کا بانی برطانوی ماہر طبعیات ڈیوڈ ڈچ (David Deutsch)کو تسلیم کیا جاتا ہے مگر چین نے اس کی افادیت کو پہلے ہی بھانپ لیا اور امریکہ پر مسابقت حاصل کرنے کیلئے تن من دھن سے کود پڑا ہے۔ اس نے امریکہ کی ۳؍ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے مقابلے میں  ۱۵؍ ارب ڈالر کے مساوی سرمایہ لگا دیا ہے۔
 ایک کوینٹم کمپیوٹنگ ہی نہیں ، وہ چاہے اے آئی ہو یا اسپیس پروگرام، سولار انرجی ہو یا ہائی اسپیڈ ٹرین نیٹ ورک یا ای کامرس یا ۵؍ جی نیٹ ورک، چین کسی ایک شعبے پر انحصار کئے بغیر زیادہ سے زیادہ شعبوں  میں  اپنی برتری کے دستخط کیلئے ہمہ وقت بیقرار رہتا ہے اور کامیابی کو یقینی بناتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ہم نے سفر ِ چین کیلئے براہ ِ راست فلائٹ بحال کردی مگر فلائٹ شروع کرنا اور چین جیسی اُڑان بھرنا دو الگ باتیں  ہیں ۔ ہمیں  اُس جیسی اُڑان کی تیاری کرنی ہوگی۔ 

india china Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK