ٹرمپ نے ایک مختصر ویڈیو خطاب میں، قطر، ترکی، سعودی عرب، مصر اور اردن کی ثالثی کی کوششوں کیلئے ان کا شکریہ ادا کیا۔
EPAPER
Updated: October 04, 2025, 5:06 PM IST | Gaza/Washington
ٹرمپ نے ایک مختصر ویڈیو خطاب میں، قطر، ترکی، سعودی عرب، مصر اور اردن کی ثالثی کی کوششوں کیلئے ان کا شکریہ ادا کیا۔
فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کئے گئے غزہ جنگ بندی کے منصوبے کے حوالے سے ثالثوں کو اپنا باضابطہ جواب دے دیا ہے جس میں اس نے علاقے میں زیر حراست تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے اور منصوبے کی دیگر کلیدی تفصیلات پر مذاکرات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ قطری اور فلسطینی حکام کے مطابق، حماس نے امریکی منصوبے کی کئی شقوں پر وضاحت طلب کی ہے لیکن اس نے قطر اور مصر سمیت ثالثوں کے ساتھ کام کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
حماس نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ وہ اس منصوبے کے تحت، تمام زندہ اور مردہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر متفق ہے۔ تاہم، حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے الجزیرہ کو بتایا کہ یرغمالیوں کو حوالے کرنے کیلئے تجویز کردہ ۷۲ گھنٹوں کی آخری تاریخ ”نظریاتی اور غیر حقیقت پسندانہ“ تھی۔ حماس نے غزہ کی انتظامیہ، ایک آزاد فلسطینی ٹیکنوکریٹک ادارے کے حوالے کرنے پر اپنی منظوری کا اعادہ کیا اور زور دیا کہ علاقے کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ تمام فلسطینی گروپس کی نمائندگی کرنے والے ”جامع قومی فریم ورک“ کے ذریعے ہونا چاہئے۔ گروپ نے مزید کہا کہ غزہ کی طویل مدتی حکمرانی، بین الاقوامی قانون اور قومی اتفاق رائے کے مطابق ہونی چاہئے۔ حماس نے ٹرمپ، عرب اور اسلامی ممالک کی ثالثی کی کوششوں کی بھی ”تعریف“ کی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”حماس عرب، اسلامی اور بین الاقوامی کوششوں کے ساتھ صدر ٹرمپ کی ان کوششوں کی بھی تعریف کرتا ہے جو جنگ کے خاتمے اور ہمارے لوگوں کی نقل مکانی کو مسترد کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔“
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں اسرائیلی حملوں میں پچھلے۳۶؍گھنٹوں کےدوران۶۳؍فلسطینی شہید، ۲۲۷؍زخمی
ٹرمپ نے حماس کے جواب کی ستائش کی، اسرائیل سے بمباری روکنے کی اپیل
حماس کے اعلان کے بعد، ٹرمپ نے کہا کہ مذاکرات پر حماس کی آمادگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ”دیرپا امن کیلئے تیار“ ہے۔ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم، ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں انہوں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ”فوری طور پر غزہ میں بمباری روک دے تاکہ ہم یرغمالیوں کو محفوظ اور جلدی باہر نکال سکیں۔“ ٹرمپ نے مزید لکھا کہ ”یہ صرف غزہ کیلئے نہیں ہے، یہ مشرق وسطیٰ میں طویل عرصے سے تلاش کئے جانے والے امن کیلئے میں ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کیلئے مذاکرات پہلے ہی شروع ہو چکے ہیں۔
بعد میں، ایک مختصر ویڈیو خطاب میں، انہوں نے قطر، ترکی، سعودی عرب، مصر اور اردن کی ثالثی کی کوششوں کیلئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ ”یہ ایک بڑا دن ہے، شاید بے مثال۔ سب کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے گا۔ میری ترجیح یرغمالیوں کو گھر واپس لانا اور جنگ کا خاتمہ کرنا ہے۔“
یہ بھی پڑھئے: صمود فلوٹیلا : دنیا بھر میں عوام سڑکوں پر ،اسرائیل کی مذمت
اسرائیل نے فوجی کارروائیاں کم کرنے کا حکم دیا
اطلاعات کے مطابق، ٹرمپ کی اپیل کے فوراً بعد، اسرائیل کی سیاسی قیادت نے فوج کو غزہ میں کارروائیاں کم کرنے کا حکم دیا۔ اسرائیل کے آرمی ریڈیو کے مطابق، حکومت نے فوج کو سرگرمیاں ”کم سے کم“ رکھنے اور کارروائیوں کو دفاعی آپریشنز تک محدود کرنے کی ہدایت دی۔ صحافی ڈورون کادوش نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ ”عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ شہر پر قبضہ کرنے کا آپریشن فی الحال روک دیا گیا ہے۔“ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے دفتر نے ٹرمپ کے منصوبے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کیلئے اسرائیل کی تیاری کی تصدیق کی۔ تاہم، بی بی سی اور الجزیرہ کے مطابق، ٹرمپ کی اپیل کے باوجود، غزہ میں جمعہ کو اسرائیلی حملے جاری رہے جس میں درجنوں فلسطینی شہید ہوئے۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ اور یورپی لیڈران غزہ میں امداد کی فراہمی یقینی بنائیں: کولمبیا کے صدر
عالمی لیڈران نے پیش رفت کا خیرمقدم کیا
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو غطریس نے حماس کی شمولیت کیلئے تیاری کا خیرمقدم کیا اور تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ ”غزہ میں المناک تنازع کو ختم کرنے کے موقع کو غنیمت جانیں۔“ انہوں نے قطر اور مصر کی ”بیش قیمت ثالثی“ کیلئے ان کا شکریہ ادا کیا اور مستقل جنگ بندی اور بلا روک ٹوک انسانی رسائی کیلئے اپنی اپیل کا اعادہ کیا۔
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے حماس کے بیان کو ”تعمیری اور دیرپا امن کے حصول کی طرف اہم قدم“ قرار دیا اور اسرائیل پر اپنی ”نسل کشی کی جنگ“ کو ختم کرنے پر زور دیا۔ قطر کی وزارت خارجہ نے مصر اور واشنگٹن کے ساتھ ہم آہنگی کی تصدیق کی اور ٹرمپ کی تجویز پر حماس کے ”اصولی اتفاق“ کا خیرمقدم کیا۔ مصر نے حماس کے جواب کو ایک ”مثبت پیش رفت“ قرار دیا جو فلسطینی گروپس کی ”اپنے لوگوں کے خون کو بچانے“ کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔
یورپی لیڈران نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا۔ برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے حماس کے اقدام کو ”اہم پیش رفت“ قرار دیا اور تمام فریقوں سے امریکہ کے ساتھ منصوبے کو تیزی سے نافذ کرنے کی اپیل کی۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ فرانس جنگ بندی اور انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کیلئے ”اپنا پورا کردار ادا کرے گا۔“ جرمن چانسلر فریڈرک میرز اور اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ٹرمپ کی کوششوں کیلئے اپنی ”مکمل حمایت“ کا اعادہ کیا اور منصوبے کو ”امن کیلئے بہترین موقع“ قرار دیا۔ آئرلینڈ کے وزیر اعظم مائیکل مارٹن نے کہا کہ اس پیش رفت سے ”دیرپا امن کیلئے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔“
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹرمپ کی قیادت کو سراہا اور اس پیش رفت کو ”دیرپا اور منصفانہ امن کی طرف ایک اہم قدم“ قرار دیا۔ مودی نے ایک بیان میں کہا کہ ”ہندوستان غزہ امن کی کوششوں میں ہونے والی پیش رفت کا خیرمقدم کرتا ہے اور خطے میں استحکام اور انسانیت کو فروغ دینے والے تمام اقدامات کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔“
یہ بھی پڑھئے: گلوبل صمود فلوٹیلا کے قیدیوں کی اسرائیلی حملے کے خلاف غیرمعینہ مدت کی بھوک ہڑتال
غزہ میں سکون اور محتاط امید
حماس کے اعلان کے بعد غزہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور فلسطینی، جھنڈے لہراتے ہوئے جنگ بندی کا جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر جمع ہو گئے۔ تقریباً دو برسوں سے اسرائیل کی مسلسل بمباری کا سامنا کرنے والے غزہ کے باشندوں کیلئے حماس کے فیصلے نے راحت اور تعمیر نو کی امید روشن کی ہے۔ غزہ کے ایک رہائشی نے الجزیرہ کو بتایا کہ ”ہم صرف چاہتے ہیں کہ بمباری رک جائے۔ اگر اس سے ایک دن کا بھی امن آتا ہے، تو یہ جشن کے قابل ہے۔“