ایک فلسطینی خاتون صحافی اسرائیلی جارحیت سے اس طرح متاثر ہوئی کہ اُس کی ٹھوڑی شدید طور پر زخمی ہوئی اور سرجری کے باوجود پرانی ہیئت پر نہیں آسکی۔
EPAPER
Updated: May 23, 2025, 5:06 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ایک فلسطینی خاتون صحافی اسرائیلی جارحیت سے اس طرح متاثر ہوئی کہ اُس کی ٹھوڑی شدید طور پر زخمی ہوئی اور سرجری کے باوجود پرانی ہیئت پر نہیں آسکی۔
ایک فلسطینی خاتون صحافی اسرائیلی جارحیت سے اس طرح متاثر ہوئی کہ اُس کی ٹھوڑی شدید طور پر زخمی ہوئی اور سرجری کے باوجود پرانی ہیئت پر نہیں آسکی۔ اس سے بھی زیادہ بلکہ کہیں زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہوئی کہ اُس کی تین اولادیں (ریتل، نور الحق اور اُسامہ) آنِ واحد میں اُس سے چھن گئیں۔ اس صحافی خاتون کا نام دوحہ السیفی ہے جس نے ایکس (سابق ٹویٹر) پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’’مَیں اہل غزہ ہوں، مَیں نے اذیت دیکھی ہے اور (خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ میری) جان کیسے بچی، ہرچند کہ جسم زخمی ہوچکا تھا لیکن (اپنے جگر گوشوں کو گنوانے کے باوجود) مَیں ایک ماں کی زخمی روح کے ساتھ جی رہی ہوں ، جو بھی لفظ مَیں بولتی ہوں اور جو بھی لفظ لکھتی ہوں، اُس میں میری سرزمین کا دُکھ ہے اور میرے عوام کےجذبات ہیں، اب مَیں ایک صحافی کی حیثیت سے کم اور ماں کی حیثیت سے زیادہ لکھتی ہوں جس نے جنگ کو بھگتا ہے، مَیں اُس انسان کی حیثیت سے بھی لکھتی ہوں جس کے پاس ایک مقصد ہے اور مَیں اُس فلسطینی کی حیثیت سے بھی لکھتی ہوں جس کا درد عالمی ضمیر پر قرض ہے۔‘‘
مگر کیا عالمی ضمیر جاگ رہا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ کبھی جھرجھری لیتا ہے اور پھر سو جاتا ہے۔ اسرائیل پر پچھلے چند دِنوں میں جو دباؤ پڑا ہے، وہ اب تک کیوں نہیں پڑا تھا؟ کیا عالمی ضمیر انتظار کررہا تھا کہ تب جاگے گا جب شہید ہونے والے معصوم بچوں اور ضعیف مردوں اور عورتوں کی تعداد ۵۳؍ ہزار سے تجاوز کرجائیگی؟ یا جب بیشتر غزہ تباہ ہوچکا ہوگا، جب اسپتال نہیں رہ جائینگے اور اسکولی عمارتیں منہدم ہوجائینگی اور جب غذ ا کی قلت باقی ماندہ اہل غزہ کو بھکمری اور فاقہ کشی کی راہ پر ڈال دے گی؟ کیا عالمی ضمیر دیکھنا چاہتا تھا کہ اپنے لاڈلوں اور کلیجے کے ٹکڑوں کو ابدی نیند سوتا دیکھ کر اُن کے والدین پر کیا گزرتی ہے؟ کیا عالمی ضمیر یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ زندہ بچ رہنے والے تب کیسا محسوس کرتے ہیں جب اُن کا بھرا پُرا خاندان صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہو؟ عالمی ضمیر کے جاگنے کا استقبال کیا جاسکتا تھا مگر یہ اتنی دیر سے جاگا ہے کہ اس کے جاگنے پر یقین نہیں آرہا ہے۔
یورپی یونین نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی معاہدہ کی شق نمبر ۲؍ پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت اس پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔ ذرا سوچئے تل ابیب کو اُس کے بھیانک جرائم کی کتنی ہلکی سزا دینے کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ نیتن یاہو کی جس حکومت کو اب تک دُنیا کے نقشے پر موجود ایک ایک ملک کی برہمی اور ناراضگی کا ہدف ہونا چاہئے تھا، اُس کے بارے میں اب بھی صرف غور کیا جارہا ہے یہ کیسی ستم ظریفی ہے؟ خود زخمی ہونے اور اپنے تین معصوم بچوں سے محروم کردی گئی دوحہ السیفی کے دل سے پوچھئے کہ اُس پر کیا گزری؟ تل ابیب نے اہل غزہ میں بچوں کو بمباری کے ذریعہ بھی مارا اور بھوک پیاس نیز دواؤں کی قلت کے ذریعہ بھی مارا ہے۔ اس پر قتل عام کا مقدمہ دائر کرکے اس کی سوفیصد معاشی ناکہ بندی ہی وہ کم سے کم سزا ہے جو اسے دی جاسکتی ہے۔ مگر اس کم سے کم سزا پر بھی کون غور کررہا ہے؟ دوحہ السیفی جیسی اور کتنی خواتین ہوں گی جن کا شمار تک نہیں کیا جاسکتا جنہیں اپنی باقیماندہ زندگی اُن زخموں کے ساتھ گزارنی ہوگی جو روح پر لگے ہیں۔ جسم پر لگے زخم تو بھر جاتے ہیں مگر روح کے زخم؟ n