اُن لوگوں کے بارے میں سوچنا چاہئے جو چھوٹی چھوٹی سرگرمیوں میں اعلیٰ پائے کا سکون تلاش کرتے ہیں ۔ پھر ان سرگرمیوں میں دیگر لوگوں کو بھی شامل کرتے ہیں اور انہیں بھی زندگی میں چھوٹی بڑی رنگینیاں پیدا کرنے کا موقع دیتے ہیں ۔
اُن لوگوں کے بارے میں سوچنا چاہئے جو چھوٹی چھوٹی سرگرمیوں میں اعلیٰ پائے کا سکون تلاش کرتے ہیں ۔ پھر ان سرگرمیوں میں دیگر لوگوں کو بھی شامل کرتے ہیں اور انہیں بھی زندگی میں چھوٹی بڑی رنگینیاں پیدا کرنے کا موقع دیتے ہیں ۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ سماجی خدمت یعنی چند بندھی ٹکی سرگرمیاں ۔ جی نہیں ، اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہاں تک وسیع ہے جہاں تک انسانی سوچ جاسکتی ہے۔ معاشرہ کے اگر کچھ لوگ بندھی ٹکی سرگرمیوں میں مصروف رہنا چاہیں تو اس میں بُرائی نہیں ہے بلکہ یہ لائق تحسین ہے مگر کچھ ہٹ کر سوچنا اور اس میں ہر عمر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ طلبہ کو شریک کرنا دور اندیشی شمار کیا جائیگا۔
ایک تنظیم’’ڈارک روم‘‘ ہے جو لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ وہ موبائل اور انٹرنیٹ کے زمانہ میں خط نویسی کا لطف اُٹھائیں ، اگر نہیں جانتے کہ خط کیسے لکھا جاتا ہے تو اس تنظیم کے نمائندے ورکشاپ منعقد کرکے خط لکھنا سکھاتے ہیں ، القاب و آداب سے واقف کراتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ خط بھیج کر اس کے جواب کا انتظار کرنا کتنا خوبصورت عمل ہوا کرتا تھا جو قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ بلاشبہ خطوط اب بھی لکھے جاتے ہیں مگر اُن کی نوعیت دفتری ہے، ذاتی خط لکھنے کا رواج ختم ہوچکا ہے۔ موبائل ہاتھ میں ہو اور خط لکھنے پر آمادہ کیا جائے تو لوگ باگ احمق سمجھیں گے، دیوانہ کہیں گے مگر کیا دیوانگی کا اپنا مقام نہیں (مری دیوانگی پر ہوش والے بحث فرمائیں =مگر پہلے اُنہیں دیوانہ بننے کی ضرورت ہے: سیمابؔ)۔
جن لوگوں نے خط لکھنے کی طرح لکھا ہے، اسے ڈاک خانے جاکر سپرد ڈاک کیا ہے اور پھر کئی کئی دن اس کے جواب کا انتظار کیا ہے اُنہوں نے خط لکھنے کا بھی لطف لیا، خط سپرد ِ ڈاک کرنے کی زحمت کو بھی عزیز رکھا اور جوابِ خط کے انتظار میں عالم ِ تصور کو اس طرح سجائے رکھا جیسے ایک خط کے کئی جواب متوقع ہوں ۔ مثلاً اس بات پر والد صاحب کا یہ جواب بھی ممکن ہے اور وہ بھی، والدہ کا مطمح نظر یہ ہوسکتا ہے، بھائی بہنوں کے سوچنے کا انداز یہ ہوسکتا ہے۔ جس طرح اُردو شاعری کو محبوب سے جوڑ کر محدود کردیا جاتا ہے اسی طرح خط بھی محبوب سے سلسلۂ مراسلت تک محدود نہیں ۔ اُردو میں مشاہیر کے خطوط کی پوری تاریخ ہے۔ سیکڑوں کتابیں آج بھی دستیاب ہیں ۔ یہی حال دیگر زبانوں کا ہے۔ وہاں بھی ادیبوں ، دانشوروں ، فنکاروں ، سماجی خدمتگاروں اور سیاستدانوں کے خطوط کتابی شکل میں شائع کئے گئے اور آج بھی ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں ۔ چونکہ نئی نسل خطوط نویسی کی اہمیت سے واقف نہیں ہے اس لئے اُن میں دلچسپی پیدا کرنے کیلئے مذکورہ ادارہ نے پہل کی۔ اب اس پر وہ لوگ بھی اظہار خیال کررہے ہیں جن کے مداحوں کی تعداد زیادہ ہے یا جنہیں سوشل میڈیا انفلوئنسر کہا جاتا ہے۔ یہ اس لئے اہم ہے کہ سوشل میڈیا پر ’’اِنسٹنٹ مسیجنگ‘‘یعنی اِدھرلکھا (ٹائپ کیا) اور اُدھر جواب آگیا، یہ عمل دوبہ دو بات چیت جیسا ہے مگر اس میں سوچنا، غور کرنا، لکھنا، اور اپنے احساسات میں مکتوب الیہ کو شامل کرنا جیسی کیفیت نہیں ہوتی۔
یہ محض مثال ہے کہ کس کس طرح سے آج کی دُنیا اُن چیزوں کو واپس لانے کی کوشش کررہی ہے جو بہت پیچھے جاچکی ہیں اور اگر آج انہیں متعارف نہیں کرایا گیا تو کل اُن کے بارے میں بتانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ خط نویسی روزانہ تو ممکن نہیں مگر مہینے میں ایک بار کسی دوست یا عزیز کو خط لکھ کر اُسے ’’سرپرائز‘‘ دیا جاسکتا ہے تاکہ جوابی خط سے آپ بھی سرپرائز ہوں یعنی سرفراز ہوں ۔