میر ساجدعلی قادری علم و ادب سے گہری وابستگی رکھنے والی ممتاز شخصیت اور مجاہدین آزادی کے خاندان سے تھے، ان کے چچا میر اصغر علی جامعی ۱۹۵۰ءسے ۱۹۶۲ء تک روزنامہ ’انقلاب‘ سے وابستہ رہے۔
میر ساجدعلی قادری۔ تصویر:آئی این این
زندگی میں کچھ لوگ لفظوں سے نہیں روشنی سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ جہاں بھی ہوتے ہیں اپنے علم ، اخلاق اور قلم کے ذریعہ دلوں میں جگمگاتے رہتے ہیں۔ ۲۲؍ مئی ۱۹۳۸ء کو جلگاؤں شہر کی سرزمین پر ایک ننھا چراغ روشن ہوا، جو آگے چل کر فکر و دانش کے آسماں کا ستارہ بن گیا۔ میرے مرحوم شوہر میر ساجد علی قادری کو مَیں ایسے ہی درخشاں ستارے کی حیثیت سے یاد رکھوں گی جو علم وادب کے آسمان پر ہمیشہ چمکتا رہے گا۔
میر صاحب ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو مجاہدین آزادی کی لازوال خدمات کی پہچان ہے، جن کی رگوں میں آزادی، قربانی، ایثار کی حرارت دوڑتی تھی۔ میر صاحب کے پردادا مرحوم میر شکر اللہ نے، جو ’’خاندیش کے گاندھی‘‘ کے لقب سے مشہور تھے، حق و صداقت کی مشعل کو جلائے رکھا۔ آپ کے والد مرحوم میر اکبر علی نے اسی روایت کو وقار و استقامت کے ساتھ آگے بڑھایا۔ میر صاحب کے قریبی رشتے دار بھی ادبی و صحافتی میدان میں روشن مثال بنے۔ ان کے چچا میر اصغر علی جامعی ۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۲ء روزنامہ انقلاب سے وابستہ رہے اور قلم کے ذریعہ معاشرہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ میراصغر علی کے فرزند میرمنیر اسکرپٹ رائٹر کے طور پر ٹی وی اور تھیٹر میں محتاجِ تعارف نہیں۔ متعدد ٹی وی چینلوں پر ان کے ڈرامے اور سیرئیل کافی مقبول ہوئے۔
میر صاحب کا بچپن آزمائشوں سے پُر تھا۔ کم عمری میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا مگر انہوںنے کبھی ہمت نہیں ہاری ، اخبار فروخت کرکے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو تعلیم دلوائی، اُن کی شادیاں کیں اور دورِ طالب علمی ہی سے خاندان کی کفالت کی اور شاندار مستقبل کی بنیاد رکھی۔ یہی صبر، محنت، قربانی اور ایثار ان کی شخصیت کی پہچان بن گیا۔
میرصاحب کی شخصیت سادہ، پُرشفقت اور علمی قدروں کا آئینہ تھی۔ ان کی گفتگو میں انسانیت کی خوشبو تھی۔ وہ نہ صرف گھر والوں کے لئے ایک بہترین رہنما تھے بلکہ رشتے داروں اور احباب کیلئے بھی شجر سایہ دار جیسے تھے۔ سب کو اہم مشوروں سے نوازتے اور ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ گویا وہ ایک مسیحا تھے۔ میر صاحب صرف قلم کے بادشاہ نہیں بلکہ ایک بااخلاق، باکردار ، محبت کرنے والے اور میرے نقطۂ نظر سے ایک عظیم شوہر تھے۔ وہ نرم گفتار، ذمے دار، مستقل مزاج، بہترین منتظم، نفاست پسند، پروقار اور باکردار شخصیت کے علاوہ عمدہ رائٹر ، بہترین والد اور بہترین ٹیوٹر تھے۔ گھر میںبچوں کو ٹیوشن دیتے تو اس قدر کھوجاتے تھے کہ انہیں وقت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ ادب ان کی زندگی کا بہترین زیور تھا۔ اردو زبان کے علاوہ انگریزی، ہندی، مراٹھی، فارسی اور عربی پر قدرت تھی۔ میر صاحب نے کچھ عرصہ مدنی ہائی اسکول جوگیشوری میں ’’انگلش اسپیکنگ کلاس‘‘ میں بھی اپنی خاص خدمات انجام دیں۔ ایم اے، ایل ایل بی کے بعد طویل عرصہ تک ’’شپنگ کارپوریشن آف انڈیا‘‘سے بحیثیت ڈپٹی منیجر وابستہ رہے اور ۱۹۹۸ء میں باعزت طریقے سے سبکدوش ہوئے تھے۔
۲۰۰۰ء میں ان کی والدہ کا انتقال ہوا تھا جو مجاہد آزادی کی بیوہ تھیں۔ ۲۰۰۰ء میں ان کی تصنیف ’’متاع سفر‘‘ منظر عام پر آئی جو اردو ادب کا اہم حصہ ہے۔ اس کتاب کو نہ صرف قارئین نے پسند کیا بلکہ اہل علم وفن نے بھی کافی سراہا۔ اس کتاب نے قاری کے دل میں فکروشعور کے نئے دریچے وا کئے۔ میر صاحب کا طرز تحریر سنجیدہ تھا جس میں وہ خوبیاں مہکتی تھیں جو ان کی شخصیت کا حصہ تھیں۔ ان کا شعری مجموعہ ان کی زندگی کے تجربات کا آئینہ دار ہے۔ ان کی تحریروںمیں دُکھ ، امید، تہذیب اور شعور کی کارفرمائی ہے۔’’ متاعِ سفر‘‘ ایک کتاب نہیں، روحانی سفر ہے جو انسان کو سوچنے، محسوس کرنے اور زندگی کو از سر نو سمجھنے پر آمادہ کرتا ہے۔
عمر کے آخری حصہ میں میر صاحب پھیپھڑوں کے سرطان مبتلا ہوئے مگرمرض کی شدت اور اس کے سبب ہونے والی اذیت کے باوجود ان کا صبر اور رب سے قربت قابلِ رشک تھی۔ ان کی پیشانی پر سجدے کا سکون اور چہرے پر نورانی طمانیت رہتی تھی۔ انہوں نے اپنی تکلیف کاشکوہ کرنا تو دور، کبھی اسے ظاہر بھی نہیں ہونے دیا۔ موت سے دوروز پہلے انہوںنے کلمہ طیبہ پڑھا، پھر بستر پر لیٹے لیٹے اشارے سے نماز ادا کی۔ ۱۹؍ جون ۲۰۲۵ء صبح سوا سات بجے میری اور میرے تین بچوں اور داماد کی موجودگی میں ان کی رحلت نہایت پرسکون انداز میں ہوئی گویا ایک ستارہ اپنی روشنی بانٹ کر خاموشی سے افق میں چھپ گیا ہو۔ انتقال کے وقت اُن کی عمر ۸۷؍ سال کی تھی۔
میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے خانوادۂ مجاہدین آزادی کی بڑی بہو اور میر صاحب کی شریک حیات ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ میں روزنامہ انقلاب کے صفحہ ’’ اوڑھنی ‘‘کیلئے لکھتی رہوں۔ وہ میرے مضامین پڑھ کر حوصلہ افزائی کرتے اور یہ سلسلہ جاری رکھنے کا مشورہ دیتے تھے۔ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ میر ساجد علی قادری کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاکرے اوران کا قلمی سرمایہ آنے والی نسل کیلئے مشعل راہ بنے، آمین۔