آج اُردو کے مایہ ناز ناول نگار ابن صفی کا یوم ولادت بھی ہے اور یوم وفات بھی۔ اس غیر معمولی ادیب کی بہت سی لاثانی خوبیوں پر چونکہ بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائیگا اس لئے اُن کی عظمت کو موضوع بنانے کے بجائے ہم اُن کی ایک ہی خصوصیت کی نشاندہی کرکے آگے بڑھتے ہیں کہ دُنیا میں کم ہی لوگ ہیں جن کا یوم ولادت اور یوم وفات ایک ہو۔
آج اُردو کے مایہ ناز ناول نگار ابن صفی کا یوم ولادت بھی ہے اور یوم وفات بھی۔ اس غیر معمولی ادیب کی بہت سی لاثانی خوبیوں پر چونکہ بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائیگا اس لئے اُن کی عظمت کو موضوع بنانے کے بجائے ہم اُن کی ایک ہی خصوصیت کی نشاندہی کرکے آگے بڑھتے ہیں کہ دُنیا میں کم ہی لوگ ہیں جن کا یوم ولادت اور یوم وفات ایک ہو۔ اگر آپ تلاش کرنے نکلیں تو اس صف میں جن شخصیات کا ذکر ملے گا اُن میں سے اکثر بڑی شخصیتیں ہیں جیسے ابن صفی بڑی شخصیت تھے۔ مثال کے طور پر، اِن شخصیتوں میں شیکسپیئر کا نام ملتا ہے جن کے یوم ولادت پر اختلاف تو ہے مگر جس تاریخ پر زیادہ لوگوں کا اتفاق ہے اُن کے مطابق انگریزی ادب کا یہ بے مثال ادیب ۲۳؍ اپریل (۱۵۶۴ء) کو پیدا ہوا اور ۲۳؍ اپریل (۱۶۱۶ء) کو اس دُنیا سے رخصت ہوا۔ اسی طرح امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ جنہیں امریکہ کا صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور جو بحیثیت تاجر اور قانون داں بھی اپنی شناخت رکھتے تھے۔ روزویلٹ بھی پیدائش کے دن (۱۷؍ اگست) ہی موت کی آغوش میں جا پہنچے تھے۔ حقوق نسواں کیلئے زندگی بھر سرگرم رہنے والی بیٹی فرائڈ ین کا انتقال بھی اُن کے ۸۵؍ ویں جنم دن (۴؍ فروری) کو ہوا تھا۔ ویسے، نہ تو یوم پیدائش انسان کی قدرت میں ہے نہ ہی لمحہ ٔ وفات پر اس کا کوئی اختیار ہے مگر یہ بات چونکاتی ہے اور اس لئے چونکاتی ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے ۔
خیر، جہاں تک ابن صفی کے تخلیق کردہ جاسوسی ادب کا تعلق ہے، جس دور میں صفی صاحب لکھ رہے تھے، اُردو معاشرہ دو حصوں میں منقسم تھا۔ ایک طبقہ تو اُن کے مداحوں کا تھا جو ہر ماہ اُن کے ناول کا بے چینی سے انتظار کرتا تھا۔ مگر اس کے ساتھ ہی دوسرا طبقہ تھا جو نوجوانوں کو جاسوسی ناول پڑھنے سے روکتا تھا، اسے مخرب ِ اخلاق گردانتا تھا اور چاہتا تھا کہ نئی نسل کچھ پڑھے تو وہ اصلاحی ادب پڑھے، جاسوسی نہیں جو تضیع او قات کے سوا کچھ نہیں ۔ہم کسی بھی طبقے کو غلط کہنے کے بجائے ابن صفی کے ناولوں کو اُردو زبان کی ترویج و اشاعت کے نقطۂ نظر سے بہت خاص تصور کرتے ہیں ۔ ان کے ناولوں کی مقبولیت کو دیکھ دیکھ کر کئی ایسے لوگوں نے اُردو سیکھی (تاکہ خود ناول پڑھ سکیں ) جو اُردو سے نابلد تھے اور اُردو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ اگر ہم غلط نہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ جو اہل اُردو اُن کے ناول پڑھتے تھے اُن کی معلومات کا دائرہ وسیع ہوا کرتا تھا۔ اُن میں ایک خاص قسم کی ذہانت پائی جاتی تھی۔ وہ اُردو زباندانی کے معاملے میں دوسروں سے زیادہ قدرت رکھتے تھے۔ اُن کیلئے انگریزی بھی مشکل نہیں تھی اور انگریزی کے کئی الفاظ اُن کے حافظے کا حصہ بن جایا کرتے تھے۔ ابن صفی جیسی برجستہ گوئی اُن میں بھی دکھائی دے جاتی تھی۔
مگر افسوس کہ جیسے جیسے حالات بدل رہے ہیں ، ویسے ویسے ابن صفی کا تذکرہ اُردو معاشرہ میں کم ہوتا جارہا ہے۔ شاذو نادر ہی کوئی دکھائی دیتا ہے جس کے ہاتھوں میں صفی صاحب کا کوئی ناول ہو۔ نئی نسل میں تو ایسے لوگ شاید بہت کم ہیں جو یہ بتاتے ہوں کہ اُن کے مشاغل میں کتابوں بالخصوص ابن صفی کے ناولوں کا مطالعہ شامل ہے۔ اس کی بہت بڑی وجہ پیش رو نسل کی اُردو فراموشی ہے۔ وہ چاہتے تو نئی نسل کے ہاتھوں میں دیگر کتابوں کے علاوہ ابن صفی کے ناول تھما سکتے تھے کہ اُردو بہتر بنانی ہو تو یہ پڑھئے۔ پتہ نہیں کیوں ہم نے جس ادب کے مطالعہ کی تلقین کی جاتی تھی وہ تو نہیں پڑھا، جس سے منع کیا جاتا تھا اُس کو بھی گوارا نہیں کیا ۔