• Wed, 17 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہندوستانی تارکین وطن مشکل میں ہیں

Updated: September 17, 2025, 2:01 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اپنا وطن چھوڑ کر دیارِ غیر کو اپنانا معمولی فیصلہ نہیں ہوتا مگر بہت سے لوگ ارض وطن پر مواقع کی کمی کے سبب یا دیارِغیر میں مواقع کی بہتات، ان کے حصول کی آسانی اور معقول اُجرت یا پُرکشش تنخواہ کے پیش نظر بیرونی ملکوں میں آباد ہوجاتے ہیں ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اپنا وطن چھوڑ کر دیارِ غیر کو اپنانا معمولی فیصلہ نہیں  ہوتا مگر بہت سے لوگ ارض وطن پر مواقع کی کمی کے سبب یا دیارِغیر میں  مواقع کی بہتات، ان کے حصول کی آسانی اور معقول اُجرت یا پُرکشش تنخواہ کے پیش نظر بیرونی ملکوں  میں  آباد ہوجاتے ہیں ۔ غیر ملکوں  میں  ہندوستانی تارکین وطن کی آبادی اتنی ہے کہ مبالغہ آمیز لگتی ہے مگر ہے نہیں ۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق بیرونی ملکوں  میں  ہندوستانیوں  کی مجموعی تعداد ۳؍ کروڑ ۵۴؍ لاکھ ہے۔ کوئی دوسرا ملک ایسا نہیں  ہے جس کے شہریوں  کی اتنی بڑی تعداد دیارِ غیر میں  رہتی ہو۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ہندوستانی تعلیم یافتہ افراد اپنی قابلیت اور صلاحیت سے سبقت حاصل کرلیتے ہیں  جبکہ ہندوستانی غیر تعلیم یافتہ افراد کم اُجرت بھی قبول کرلیتے ہیں ۔ دونوں  ہی وجوہات بیرونِ ملک ان کی مانگ میں  اضافہ کرتی آئی ہے۔ اِن تارکین وطن کا گھر خاندان چونکہ ہندوستان ہی میں  رہتا ہے اس لئے یہ لوگ اپنی تنخواہ یا اُجرت کا معتدبہ حصہ وطن بھیجتے ہیں  لہٰذا خطیر رقم ہندوستان پہنچتی ہے۔ اعداددوشمار بتاتے ہیں  کہ ۲۰۲۳ء میں  ہندوستانی تارکین وطن نے ۱۲۰؍ بلین ڈالر جیسی بھاری بھرکم رقم ہندوستان بھجوائی۔ اس سے ہماری جی ڈی پی کی صحت بہتر ہوتی ہے، متعلقہ خاندان آسودہ ہوتے ہیں  اور دیگر ملکوں  سے ہمارے رابطے کو مضبوطی ملتی ہے۔ 
 مگر، حالیہ برسوں  میں  ہندوستانیوں  کیلئے دیارِ غیر بالخصوص مغربی ملکوں  کی زمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔ اسلئے نہیں  کہ ہندوستانی اب پہلے جیسے باصلاحیت اور محنتی نہیں  رہے بلکہ اسلئے کہ اِن ملکوں  میں  نسلی امتیازات یا قوم پرستی کے جذبات بڑھ رہے ہیں ۔ اس کا سب سے اہم سبب مقامی آبادی کا اندازِ فکر ہے کہ ہندوستانی تارکین وطن اچھا کماتے ہیں ، اچھا کھاتے ہیں ، ترقی پاتے ہیں ، مقامی معاشرہ میں  اُن کیلئے ایک خاص جگہ بن جاتی ہے اور وہ مقامی سیاست میں  بھی عمل دخل کی اہلیت حاصل کرلیتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے اُن میں  ’’وہ کیوں ؟‘‘ یا ’’پرائے لوگوں  کو ہمارے یہاں  اتنے مواقع کیوں ؟‘‘ کا منفی جذبہ سر اُبھارنے لگتا ہے۔ یہ حسد بھی ہوسکتا ہے مگرحسد اتنا نہیں  ہے جتنا جذبۂ قوم پرستی ہے جو امریکہ میں  ٹرمپ کے اقدامات کی وجہ سے کئی دوسرے ملکوں  میں  بھی فروغ پارہا ہے۔ 
 اس پس منظر میں  حالیہ چند واقعات کو یاد کیجئے کہ کس طرح ڈلاس (امریکہ) میں  ایک معمولی جھگڑے پر ایک ہندوستانی (کرناٹک کا ۵۰؍ سالہ چندرا ناگاملیا ّ) کا سر قلم کردیا گیا، کس طرح اولڈ بَری، مڈلینڈس (برطانیہ) میں یہ کہتے ہوئے کہ ’’تم (لوگ) یہاں  کے نہیں  ہو، چلے جاؤ‘‘ ایک ہندوستانی خاتون کی آبرو ریزی کی گئی اور کس طرح ڈبلن، آئر لینڈ میں  یکے بعد دیگرے کئی ایسی وارداتیں  ہوئیں  جن کے ذریعہ ہندوستانی (اور جنوبی ایشیاء کے دیگر ملکوں  کے) لوگوں  کو گویا یہ انتباہ دیا گیا کہ آئرلینڈ میں  اُن کیلئے جگہ نہیں  ہے۔ یہی کیا کم تھا کہ پچھلے دنوں  لندن میں  ایک بہت بڑی رَیلی، جو تارکین وطن کے خلاف تھی، منعقد کی گئی جس میں  کم و بیش ڈیڑھ لاکھ لوگوں  نے شرکت کی۔ اتنے لوگوں  کی شرکت یہ ثبوت ہے کہ آئرلینڈ میں  بھی یہ خیالِ خام بڑھ رہا ہے کہ بیرونی لوگ ہمارے وسائل ہڑپ لینے کے درپے ہیں ۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے مودی حکومت کو سفارتی ذرائع بروئے کار لانے اور اپنے لوگوں  کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK