میکے اور سسرال کے مابین فرق ختم کرنے کیلئے بچیوں کو عزت، قدر دانی اور تحفظ کے احساس سے ہمکنار کرنا چاہئے کہ وہ نہ پرائی ہیں اور نہ پرائے گھر سے آئی ہیں بلکہ اپنے گھر اپنے والدین بھائی بہنوں سے رخصت ہو کر ان جیسے ہی شفیق و مہربان رشتوں کے درمیان آئی ہیں۔ جو ایک نہیں بلکہ دو دو گھروں کی رونق ہو وہ پرائی اور غیر کیسے ہوسکتی ہے!
اگر سسرال والوں کا رویہ مثبت اور محبت والا ہو تو بچیاں بخوشی اُن کے خدمات میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گی۔ تصویر: آئی این این
ہمارے یہاں بیٹیوں کیلئے ’پرایا دھن‘ جیسی اصطلاح عام ہے۔ ہمیشہ سے ہر نسل یہ سنتی آئی ہے کہ بیٹیاں پرائی ہوتی ہیں، جہاں وہ پیدا ہوئی ہیں وہ اُن کا گھر نہیں، ایک دن سب کچھ چھوڑ کر انہیں کسی پرائے گھر جانا ہے اور اس کیلئے لڑکپن سے ہی ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ مگر اکثر والدین اور سرپرستوں سے یہ چوک ہو جاتی ہے کہ یہ تربیت مثبت انداز کی نہیں ہوتی بلکہ ڈرانے یا خوف دلانے والی منظر کشی اور منفی موازنہ پر مبنی ہوتی ہے۔ لڑکیوں کی ذہن سازی و تربیت کے سلسلے میں میکے اور سسرال کے رہن سہن کا فرق، قاعدے اور رسم و رواج ذہن نشین کرانے کا ہمارا طریقہ اکثر ہی تقابلی اور منفی انداز کا ہوتا ہے یا پھر حد درجہ متضاد۔ عموماً سسرال کو ایک جیل کی طرح نمایاں کیا جاتا ہے۔ یہ تسلیم کہ بدبخت اور ظالم لوگ بھی ہمارے معاشرہ میں موجود ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کچھ بچیاں آزمائش میں پڑ جاتی ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک جتنی ہی ہوگی، نیک و سمجھدار گھرانے بھی ہمارے اسی سماج کا حصہ ہیں۔
اس لئے یہ کہاں تک درست ہے کہ تربیت کے نام پر لڑکپن سے ہی بیٹیوں کے دل و دماغ میں دوسرے گھر کا اس قدر خوف بھر دیا جائے کہ اگلے گھر اور رشتوں سے انسیت کا احساس بیزاری اور نفرت میں بدل جائے! میکے میں بیٹی کو ’پرایا‘ کہتے رہنا اور سسرال میں اُسے ’پرائے گھر سے آنے والی‘ سمجھنا دونوں رویے ٹھیک نہیں ہیں، بیاہ کر آنے والی بیٹیوں کو یہ احساس نہ ہو کہ میکے میں وہ مسافر ہیں اور اُنہیں اب مہاجر بن کرنہ صرف کسی دوسرے گھر میں اجنبی رشتوں کے درمیان جانا ہے بلکہ ہر قدم ہر لمحہ کئی امتحانوں سے بھی گزرتے رہنا ہے۔ جب ایک بچی تن تنہا اجنبی ماحول اور نا آشنا لوگوں میں آتی ہے تو اُسکے دل و دماغ میں اُمید، اُمنگ اور خوشیوں کے ساتھ ساتھ کئی خدشات اور تحفظات بھی ہوتے ہیں اسلئے سسرال والوں کا بھی فرض ہے کہ اپنے گھرآنے والی بچیوں کیساتھ ہمدردی اور محبت سے پیش آئیں تاکہ انہیں اطمینان ہوسکے کہ وہ خیر خواہ اور ہمدرد لوگوں کے ساتھ ہیں۔
لڑکیوں کا سسرال میں دل لگنا مشکل نہیں ہوتا اگر انہیں اطمینان ہو کہ انہیں سنبھالنے والوں کے دل بڑے ہیں، گنجائش گھروں میں نہیں دلوں میں ہونی چاہئے کیونکہ گھروں کے رقبے، خوشحالی یا بد حالی سب ثانوی چیزیں ہوتی ہیں۔ اہم ہوتے ہیں انسان کے وہ رویے جو کشادہ گھروں کو بھی تنگ، زندگی کو بوجھل اور دلوں کو بیزار کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا وہم ہے کہ لڑکیاں سب کیساتھ گزارہ کرنا نہیں چاہتیں، ساس سسر کی خدمت نہ کرنی پڑے اسلئے وہ الگ رہنا چاہتی ہیں مگر یہ بالکل بھی درست نہیں۔ درحقیقت انہوں نے اپنے ماحول سے، اپنے لوگوں سے سسرال کے بارے میں کچھ خوشگوار باتیں نہیں سنیں، اُن کے سامنے سسرال کو مجموعی طور پر ہوّا بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے گویا وہ کوئی ایسی جگہ ہے جہاں جیل کا قانون چلتا ہو اور جہاں سانس لینے کیلئے بھی اجازت درکار ہو۔
سسرال والوں کا فرض ہے کہ اس کشمکش والی صورتحال سے نبرد آزما بچیوں کو سرکش یا باغی سمجھنے کے بجائے ہمدردی اور رواداری والے برتاؤ کیساتھ اُن کے خوف و گریز کو دور کرنے کی مخلص کوشش کی جائے، اپنے گھر کے طور طریقے محبّت سے سکھائے جائیں۔ بیس بائیس برس کی بچیوں کے کاموں میں چالیس سالہ مہارت کی توقع کرنا واقعی غلط ہے کیونکہ اس عمر میں انسان سیکھنے کے پروسیس میں ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ بےجا تنقید، طعن و تشنیع، نامناسب موازنہ جیسے رویے اگر ہمارے گھروں سے نکل جائیں تو پھر ہم دیکھیں گے کہ یہ بچیاں خدمت کرنے سے نہیں گھبراتیں اور نہ ہی جوائنٹ فیملی سسٹم سے بلکہ انہیں وہ ضربیں توڑ دیتی ہیں جو سسرال میں تلخ زبان اور درشت مزاج سے ملتی ہیں، وہ گھر اور باہر کے ہزار کام کرنے سے بھی نہیں تھکتی کیونکہ تھکاوٹ کام کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ ناقدری اور اُن لہجوں سے ہوتی ہے جو مٹھاس سے خالی اور زہر سے زیادہ کڑوے ہوتے ہیں، جو صرف تنقید کرنا جانتے ہیں ورنہ عورت تو اتنی مضبوط ہے کہ محبت کے چند میٹھے بول کے عوض وہ ایک کنبہ بخوبی چلا لیتی ہے، ضرورت پیش آئے تو نوکری کرکے معاشی ذمہ داری کا بار بھی اُٹھا لیتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بچے بھی پال لیتی ہے۔ ہمارے گھروں اور دلوں میں اگر احساس و محبت کے چراغ روشن رہیں تو ہمارے رشتے مستحکم اور خوبصورت ہو جائینگے کیونکہ خلوص محبت و قدردانی کے احساس کیساتھ انسان جھوپڑی میں بھی خوش رہ سکتا ہے۔ دلوں میں گنجائش ہو، ایک دوسرے کی ضروریات اور جذبات کا لحاظ ہو تو کئی خاندان ایک ہی چھت کے نیچے رہ لیتے ہیں مگر نفرت اور بے حسی اور ناقدری کے ساتھ بادشاہوں کے محلات بھی تنگ پڑ جاتے ہیں۔ بدنصیبی سے یہی ہمارا سماجی مسئلہ ہے کہ ہمارے اکثر گھرانوں میں ایسی محبت اور قدر دانی کا قحط ہے، بیاہ کر آنیوالی بچیوں کیلئے سازگار اور انسیت والا ماحول فراہم کرنے میں اکثر کوتاہی ہو جاتی ہے۔