انسان کو بُرائی سے سب سے پہلے کون روکتا ہے یا روک سکتا ہے؟ اُس کا ضمیر۔ اس کے بعد قانون کی باری آتی ہے جس سے حکومت اور اس کے ماتحت ادارہ یعنی محکمۂ پولیس کا تعلق ہے۔
EPAPER
Updated: August 22, 2025, 1:36 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
انسان کو بُرائی سے سب سے پہلے کون روکتا ہے یا روک سکتا ہے؟ اُس کا ضمیر۔ اس کے بعد قانون کی باری آتی ہے جس سے حکومت اور اس کے ماتحت ادارہ یعنی محکمۂ پولیس کا تعلق ہے۔
انسان کو بُرائی سے سب سے پہلے کون روکتا ہے یا روک سکتا ہے؟ اُس کا ضمیر۔ اس کے بعد قانون کی باری آتی ہے جس سے حکومت اور اس کے ماتحت ادارہ یعنی محکمۂ پولیس کا تعلق ہے۔ مگر، فی زمانہ قانون، حکومت، پولیس وغیرہ پر سماج کا اصرار اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہر بات کیلئے خواہ اخلاقی گراوٹ ہو یا بڑھتے جرائم لوگ باگ حکومتوں کو، قانون کو، پولیس کو اور عدالتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ، ضمیر کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے جبکہ پہرے دار کی حیثیت سے سب سے پہلے وہی روک ٹوک کرتا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ضمیر کو جس طرح سمجھا جانا چاہئے، اب نہیں سمجھا جاتا اور اس پر جو محنت ہونی چاہئے اب نہیں ہوتی۔ بُرائیوں کا ارتکاب کرنے والا جب اپنے اُس ضمیر کی فطری آواز سنتا ہے، جس پر محنت نہیں ہوئی ہے، تب اُسے تھپکی دے کر سلا دیتا ہے اور اولین انتباہ یا روک ٹوک کی پہلی منزل سے بآسانی گزر جاتا ہے۔ جب اُس کی بُرائی منظر عام پر آتی ہے تو سماج اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتا ہے اور اسے نظم و نسق کا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ بات مزید آگے بڑھتی ہے تو پولیس کا طرز عمل زیر بحث لایا جاتا ہے۔ گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا ہے توقانونی نقائص پر تان توڑی جاتی ہے اور جب بات اس سے بھی آگے بڑھتی ہے تو عدلیہ کو ہدف بنایا جاتا ہے کہ برسہا برس مقدمات کا فیصل نہ ہونا بُرائیوں میں اضافے کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ان سب کے عمل دخل سے انکار نہیں مگر کیا یہی سب کچھ ہیں ؟
اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ سماج میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کیلئے ’’مَیں ‘‘ یا ’’ہم‘‘ کوئی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے اور صاف کہتے ہیں کہ ذمہ دار پولیس ہے، حکومت ہے، عدالت ہے، سماج ہے، بڑھتی بے راہ روی ہے، فلمیں ہیں ، میڈیا ہے اور اب تازہ ترین ایجاد سوشل میڈیا ہے جو اِن دنوں عموماً موضوع بحث رہتا ہے۔
ضمیر پر محنت کب سے شروع ہوتی ہے؟ تب سے جب بچہ گھٹنوں کے بل چلنا شروع کرتا ہے۔ تب ہی سے اُسے خطرہ یا بُرائی کے خلاف متنبہ کیا جاتا ہے اور اس کی جانب بڑھنے سے روکا جاتا ہے۔ ماں کہتی ہے: ’’بیٹا ہا (آگ) ہے، جل جاؤ گے!‘‘ یا ’’دیکھو پیر پھسلا تو گر پڑو گے!‘‘۔ ابھی وہ باتوں کا مفہوم سمجھنے کے قابل نہیں ہوا مگر ضمیر کی تربیت یا بُرائی کے خلاف حساسیت پیدا کرنے کا عمل شروع ہوگیا۔ پہلے جملے میں آگ کے خلاف انتباہ ہے اور دوسرے میں پھسلن کے خلاف۔ دونوں کو بُرائی کا راستہ سمجھ لیجئے تو ایسی بُرائیوں کے خلاف روک ٹوک کا ایک فطری میکانیزم ہر گھر میں موجود ہے مگربے پناہ مصروفیتوں کے اِس دور میں اکثر والدین اس ابتدائی روک ٹوک کے بعد سلسلۂ تربیت کو آگے نہیں بڑھاتے، بُرائی کے خلاف حساسیت پیدا کرنے کے جتن نہیں کرتے اور ضمیر کو مستحکم کرنے کی فکر نہیں کرتے۔
اگر آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں تو اس کا جو نتیجہ ہے اُسے بھی سامنے رکھ لیجئے کہ معاشرہ میں کیسی کیسی بُرائیاں جنم لے رہی ہیں ۔ ان میں بعض ایسی ہیں کہ جن کا تصور بھی کل تک محال تھا۔ پارکنگ کے تنازع میں نوک جھونک ہوسکتی ہے، ہاتھا پائی بھی ہوسکتی ہے مگر قتل کیسے ہوسکتا ہے؟ میاں بیوی میں نزاع ہو تو چند روز گفتگو بند رہ سکتی ہے، ایک کو دوسرا دھکیل کیسے سکتا ہے؟ غربت سے پریشان ہونا غیر فطری نہیں مگر عاجز آکر بچوں کی جان لے لینا کیا ہے؟ ایسے واقعات اور وارداتیں ہزاروں ہیں ۔ ہمیں سوچنا یہ چاہئے کہ کوتاہی کہاں ہورہی ہے اور ضمیر نے ٹوکنا کیوں بند کردیا ہے۔ ہم کب تک پولیس یا حکومت یا کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے اور اس سے پہلے خو دکو نہیں ۔