• Tue, 23 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا ایسے بھی خاموش رکھا جاتا ہے دُنیا کو؟

Updated: December 23, 2025, 3:02 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ستم ظریفی کو کیا نام دیا جائے کہ ایک طرف عام آدمی ہے، وہ کہیں کا ہو، ہندوستان کا یا ایشیاء کے کسی اور ملک کا یا کسی بھی دوسرے براعظم کا، اُس کے سامنے روزی روٹی، مکان، ملازمت یا روزگار، بچوں کی صحت اور کفالت، اُن کی تعلیم اور بزرگ والدین کی ضرورتیں ہوتی ہیں مگر دوسری طرف عالمی سطح پر ایسے عناصر بھی پائے جاتے ہیں جو حکومتوں پر دباؤ ڈال کر انہیں ایسے فیصلوں پر مجبور کرسکتے ہیں جو عام آدمیوں کے مفاد کے برعکس بھی ہوسکتے ہیں ۔

INN
آئی این این
سمجھ میں  نہیں  آتا کہ اس ستم ظریفی کو کیا نام دیا جائے کہ ایک طرف عام آدمی ہے، وہ کہیں  کا ہو، ہندوستان کا یا ایشیاء کے کسی اور ملک کا یا کسی بھی دوسرے براعظم کا، اُس کے سامنے روزی روٹی، مکان، ملازمت یا روزگار، بچوں  کی صحت اور کفالت، اُن کی تعلیم اور بزرگ والدین کی ضرورتیں  ہوتی ہیں  مگر دوسری طرف عالمی سطح پر ایسے عناصر بھی پائے جاتے ہیں  جو حکومتوں  پر دباؤ ڈال کر انہیں  ایسے فیصلوں  پر مجبور کرسکتے ہیں  جو عام آدمیوں  کے مفاد کے برعکس بھی ہوسکتے ہیں ۔ 
اِن دنوں  ایک شخص کا نام عالمی میڈیا کی سرخیوں  میں  ہے۔ اس کا نام ہے جیفرے ایپسٹن۔ اس کے بارے میں  سنا جارہا ہے کہ اس نے دُنیا کی بڑی بڑی طاقتوں  پر اثرانداز ہونے کیلئے ایسے گھناؤنے کام کئے کہ ان پر لکھا بھی نہیں  جاسکتا البتہ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اس نے نہایت اثرو رسوخ والی شخصیتوں  کو اپنے دام فریب میں  پھانسنے کیلئے نوعمر لڑکیوں  کا سہارا لیا۔وہ انہیں  اپنے ایپسٹن آئی لینڈ پر مدعو کرتا اور نوعمر لڑکیوں  کی صورت دعوت عیش پیش کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اُن کی تصاویر محفوظ کرلیتا اور اُن کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ رکھتا۔ یہ پُر اسرار اور غلیظ ریکٹ کتنا پُرانا ہے اس کا اندازہ لاس اینجلز ٹائمس کی ایک رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس کا پہلا ہی جملہ کچھ اس طرح ہے: ’’گزشتہ دو دہائیوں  کے دوران کم و بیش ۱۰۰؍ خواتین نے حکام کو اِس شخص کے بارے میں  بتایا تھا مگر... یہ شخص ٹرمپ،  بل کلنٹن اور ایسی ہی کئی غیر معمولی طور پر با اثر شخصیات کا دوست تھا۔‘‘ ان خو اتین میں  سے بیشتر نے پہلے تو اپنی شناخت (نام) ظاہر نہیں  کیا مگر بعد میں  نام ظاہر کرکے متنبہ کرنے کی جرأت کی۔ ‘‘وہ خصوصیت جس کے سبب کوئی اس کے خلاف کچھ سننا نہیں  چاہتا تھا، اُس کا امیر و کبیر ہونا ہی نہیں  تھا بلکہ یہ حقیقت بھی تھی کہ عالمی سطح کی مشہور اور با اثر شخصیتوں  کے ساتھ اُس کے دوستانہ تعلقات تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود بارک سے بھی اُس کے گہرے مراسم تھے۔ بہرکیف اس ریکٹ کا بھانڈا پھوٹنا ہی تھا، سو پھوٹا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ایپسٹنکا پورا ڈیٹا،جو ۳۰۰؍ جی بی کا ہے، منظر عام پر لایا جارہا ہے۔ یہ فائلیں  تمام کی تمام منظر عام پر آجائینگی تو دُنیا جان لے گی کہ انسانیت کے خلاف بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے والے اس شخص کے ساتھ کون کون تھا، کس کس سے اُس کی دوستی تھی اور ان کی دوستی کیا گل کھلا رہی تھی۔ ایک بات بہت واضح ہے، وہ اسرائیل کا آلۂ کار تھا۔ 
بعض لوگوں  کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا ایجنٹ تھا، اس کیلئے کام کرتا تھا مگر بعض دیگر کا خیال ہے کہ وہ موساد کے کسی اعلیٰ عہدیدار کو جوابدہ یعنی تنخواہ دار نہیں  تھا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ موساد ایجنٹ سے زیادہ اختیار رکھتا تھا اور زیادہ خطرناک تھا۔ کیا و ہ سیاسی اُمور میں  بھی دلچسپی لیتا تھا یا عالمی طاقتوں  کو ہموار کرتا تھا؟ اب تک کی معلومات سے اس کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ کیا وہ حکومت ِ اسرائیل کے مفادات کی حفاظت کیلئے دُنیا کے مقتدر لوگوں  سے رسم و راہ رکھتا تھا؟ اس زاویئے کو خارج نہیں  کیا جاسکتا۔ تو کیا اس کے پاس جمع شواہد (جو ۳۰۰؍ جی بی کے ڈیٹا میں  محفوظ ہیں ) سے اسرائیل کسی کا بھی منہ بند کروا سکتا تھا؟ اس خیال کو بھی خارج نہیں  کیا جاسکتا۔ تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ ایسے ہی لوگوں  کی وجہ سے عالمی برادری اسرائیل کے خلاف چپ رہتی ہے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK