اِس وقت بہار میں پرشانت کشور (جو ’’پی کے‘‘ کہلاتے ہیں ) فارم میں ہیں ۔ اب تک دو بڑی پریس کانفرنسیں کرچکے ہیں جن میں ایسے انکشافات کی جھڑی لگائی گئی ہے کہ بی جے پی اور جے ڈی یو دونوں کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہوگا۔
EPAPER
Updated: October 01, 2025, 1:43 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
اِس وقت بہار میں پرشانت کشور (جو ’’پی کے‘‘ کہلاتے ہیں ) فارم میں ہیں ۔ اب تک دو بڑی پریس کانفرنسیں کرچکے ہیں جن میں ایسے انکشافات کی جھڑی لگائی گئی ہے کہ بی جے پی اور جے ڈی یو دونوں کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہوگا۔
اِس وقت بہار میں پرشانت کشور (جو ’’پی کے‘‘ کہلاتے ہیں ) فارم میں ہیں ۔ اب تک دو بڑی پریس کانفرنسیں کرچکے ہیں جن میں ایسے انکشافات کی جھڑی لگائی گئی ہے کہ بی جے پی اور جے ڈی یو دونوں کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہوگا۔ ان کے انکشافات میں کتنا دم ہے اس کا جواب تحقیق کے بعد ہی مل سکتا ہے جو وقت طلب ہے مگر اس سے پہلے اُصولی طور پر ہونا یہ چاہئے کہ جن لیڈروں کے خلاف اُنہوں نے سنگین الزامات عائد کئے ہیں وہ بھی اسی طرح کی پریس کانفرنس منعقد کرکے حقیقت حال واضح کریں مگر اب تک کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی ہے۔
سرسری جواب دینے سے داغ اس لئے نہیں دھل سکتا کیونکہ پرشانت کشور نے چلتے چلتے کوئی بات نہیں کہی ہے۔ اُنہوں نے باقاعدہ الزام لگائے اور نام بہ نام چیلنج کیا ہے، مثلاً بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سمراٹ چودھری پر جو الزامات ہیں اُنہیں ایک دن کیلئے بالائے طاق نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ الزامات کا تعلق آبرو ریزی اور قتل سے ہے۔ اُن سے ہی نہیں ، اُن کی پارٹی سے بھی سوال کیا جانا چاہئے کہ کیا اُن کے مبینہ مجرمانہ پس منظر سے واقفیت نہیں تھی جو اُنہیں پارٹی ہٹانا تو دور کی بات، نائب وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا؟ اسی طرح، ’’پی کے‘‘نے اشوک چودھری کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ جنتا دل متحدہ کے اس لیڈر پر ۲۰۰؍ کروڑ کی بے نامی جائیداد کا الزام لگایا گیا ہے۔ قارئین کو الزامات کی سنگینی کا اندازہ ہوسکے اس لئے یہاں محض دو لیڈروں کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ ’’پی کے‘‘ نے دیگر کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ مذکورہ دو لیڈروں میں ایک کا تعلق بی جے پی سے ہے جس کے سب سے بڑے لیڈر نے پچھلے گیارہ سال میں مہیلاؤں پر اَتیاچار یا دیگر جرائم کے خلاف کافی کچھ کہا ہے جبکہ دوسرے کا تعلق جے ڈی یو سے ہے جس کے لیڈر نتیش کمار کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسٹر کلین کی اپنی شبیہ داغدار نہ ہونے دیں ۔ مگر، نہ تو بی جے پی نے نہ ہی جے ڈی یو نے بہار کابینہ کے اِن اہم اراکین پر لگنے والے الزامات کا باقاعدہ کوئی جواب دیا ہے۔
دوسری جانب ’’پی کے‘‘ ہیں جن کی آمدنی کے بارے میں سوال کیا گیا تو اُنہوں نے اپنی دوسری پریس کانفرنس میں آمدنی کی مجموعی مالیت، اس کے ذرائع، خرچ، عطیات، ادا شدہ جی ایس ٹی اور ادا شدہ انکم ٹیکس کی پوری تفصیل سب کے سامنےرکھ دی۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اُن کے پاس چھپانے کیلئے کچھ نہیں تھا اور اُن لیڈروں کے پاس، جن پر الزام لگایا گیا، بتانے کیلئے کچھ نہیں ہے؟ ہمیں متعلقہ پارٹیوں کے علاوہ اُن مرکزی ایجنسیوں پر بھی حیرت ہے جو ملک بھر میں چھاپے مارتی ہیں مگر بہار کے زیر بحث لیڈروں کے خلاف ۱۹؍ ستمبر کی پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزامات کے بعد دس دن سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اب تک کہیں چھاپہ پڑا نہ ہی کہیں سے یہ تاثر ملا کہ کسی ایجنسی نے ’’پی کے‘‘ کے الزامات کا نوٹس لیا۔ اسے کیا کہا جائے؟ دیر کہیں یا اندھیر؟
جلد ہی بہار میں الیکشن کا اعلان ہوگا اور یقیناً پولنگ کے آخری دن تک الزام تراشی اور بیان بازی شباب پر رہے گی مگر ’’پی کے‘‘ کی دو کانفرنسوں میں جو کچھ کہا گیا وہ نہ تو نری الزام تراشی ہے نہ ہی نری بیان بازی۔ اُن کے انکشافات میں دم دکھائی دیتا ہے ۔ کیا مودی اور نتیش حکومت خاموش ہی رہیں گے؟