آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے ریاست میں ان کے ذریعے جبری بے دخلیوں کی تحقیق کرنے والی ٹیم کے خلاف متعصبانہ بیان بازی کی ہے، ناراض اراکین نے سوال کیا کہ وہ کس بات سے خوفزدہ ہیں؟
EPAPER
Updated: August 27, 2025, 3:05 PM IST | Govahati
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے ریاست میں ان کے ذریعے جبری بے دخلیوں کی تحقیق کرنے والی ٹیم کے خلاف متعصبانہ بیان بازی کی ہے، ناراض اراکین نے سوال کیا کہ وہ کس بات سے خوفزدہ ہیں؟
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے ریاست میں حالیہ انہدام اور بے دخلیوں کے حوالے سے حقائق جاننے آئے ہوئے وفد کو نشانہ بناتے ہوئے نفرت انگیز بیانات جاری کیے ہیں ان بیانات نے شدید غم و غصہ پیدا کیا ہے۔اتوار کو شرما نے الزام لگایا کہ سول سوسائٹی کے اراکین آسام میں اس لیے آئے ہیں تاکہ’’ ریاست کی نام نہاد غیر قانونی قبضہ گیروں کے خلاف جنگ‘‘ کو کمزور کیا جا سکے۔انھوں نے ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر لکھا: ’’گذشتہ روز جماعت ہند کے میرے عہدے سے برطرفی کے مطالبے پر ہنگامہ خیز بیانات کے بعد دہلی کی ایک ٹیم — ہرش مندر، وجاہت حبیب اللہ، فواس شاہین، پرشانت بھوشن، اور جوہر سرکار — آسام میں موجود ہے۔ ان کا واحد مقصد قانونی بے دخلیوں کو نام نہاد `انسانی بحران کے طور پر پیش کرنا ہے۔ یہ غیر قانونی قبضہ گیروں کے خلاف ہماری جنگ کو کمزور کرنے کی ایک منصوبہ بند کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘انھوں نے مزید کہا: ’’ہم چوکس اور مستحکم ہیں کوئی بھی پروپیگنڈا یا دباؤ ہمیں اپنی زمین اور ثقافت کے تحفظ سے نہیں روک سکے گا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: پونے: بی جے پی ایم ایل سی سدابھاؤ کھوت اور کسانوں کیساتھ گئورکشکوںکی دھکامکی
پیر کو انھوں نے سماجی کارکن سیدہ حامد پر حملہ کرتے ہوئے انھیں ’’گاندھی خاندان کی قریبی ساتھی‘‘ قرار دیتے ہوئے اپنی بیان بازی میں شدت پیدا کی، اور کہا کہ’’ وہ غیر قانونی دراندازوں کو جائز قرار دیتی ہیں۔‘‘شرما نے لکھا:’’وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے خواب کو پورا کرنا چاہتے ہیں کہ آسام کو پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔ ان جیسے لوگوں کے خاموش تعاون کی وجہ سے آج اسامی شناخت معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ لیکن ہم لچیت برفوکن کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، ہم اپنی ریاست اور اپنی شناخت کو بچانے کے لیے اپنے آخری خون کے قطرے تک لڑیں گے۔ میں واضح کر دوں، بنگلہ دیشیوں کا آسام میں خیرمقدم نہیں ہے، یہ ان کی زمین نہیں ہے۔ ان کے ہمدرد اپنے گھروں میں انھیں جگہ دے سکتے ہیں۔ آسام غیر قانونی دراندازوں کے لیے ہرگز قابلِ قبضہ نہیں ہے، نہ اب، نہ آئندہ۔‘‘
یہ بھی پرھئے: احمد نگر میں سیّد گھوڑے پیر درگاہ میں توڑپھوڑ، مسلم سماج کا احتجاج
اس سے قبل اتوار کو میڈیا سے بات چیت میں شرما نے حقیقت جاننے والے وفد پر آسام میں ’’بے چینی پیدا کرنےکی کوشش‘‘ کا الزام لگایا۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت ان کی حرکات پر نظر رکھے ہوئے ہے: ’’وہ این آر سی کے دوران کامیاب ہو گئے تھے لیکن اس بار انھیں کامیاب نہ ہونے دینے کے لیے حکومت چوکسی سے نظر رکھ رہی ہے۔‘‘ انھوں نے الزام لگایا کہ ’’کانگریس، جماعت اسلامی ہند، پرشانت بھوشن اور ہرش مندر جیسے دانشور، اور پاکستان و بنگلہ دیش کے بعض عناصر آسام کو کمزور کرنے کی سازش کا حصہ ہیں۔‘‘حقیقت جاننے کا دورہ*حقیقت جاننے والے وفد میں ٹی ایم سی کے رکن پارلیمنٹ جوہر سرکار، سابق مرکزی چیف انفارنیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ، سابق وومن کمیشن کی چیئر پرسن سیدہ حامد، کارکن اور ریٹائر افسر ہرش مندر، سینئر وکیل پرشانت بھوشن، اور اے پی سی آر کے محقق فواس شاہین شامل ہیں۔وفد نے آسام کے ان مقامات کا دورہ کیا جہاں انہدام کے نتیجے میں ہزاروں افراد، خاص طور پر بنگالی مسلمان اور قبائلی برادریاں بے گھر ہوئی ہیں۔وہ اپنی رپورٹ، جس کا عنوان ہے ’’پیپلز ٹریبونل آن آسام: ایویکشن، ڈیٹینشن اینڈ دی رائٹ ٹو بیلانگ‘‘، ۲۶؍اگست کو دہلی میں ایک تقریب میں جاری کریں گے جس کا اہتمام ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹ اور کاروان محبت کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: کولہا پور تشدد معاملے میں۴۰۰؍افراد پر کیس درج
پرشانت بھوشن نے مکتوب میڈیا کو بتایا کہ شرما کی جماعت اسلامی ہند اور ہرش مندر اور ان جیسے دانشوروں کو انتباہ واضح طور پر دھمکی دینے کے لیے تھا۔بھوشن نے کہا: ’’شرما کے بیان اور گوآلپاڑہ میں دفعہ ۱۴۴؍نافذ کرنے کے ریاستی حکومت کے اقدام سے ظاہر ہے کہ وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ آسام سے باہر کا کوئی شخص حقائق سے آگاہ ہو۔‘‘انھوں نے سوال کیا کہ’’ ریاست معروف عوامی شخصیات سے کیوں خوفزدہ ہے: اگر وہ یہ دیکھنے آ رہے ہیں کہ ریاست میں کیا ہو رہا ہے تو مسئلہ کیا ہے؟ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر غیر قانونی کام کر رہے ہیں۔‘‘بھوشن نے قبائیلیوں سے ہوئی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہ خالی کرائی گئی زمین پتنجلی اور اڈانی کو دی جائے گی۔‘‘ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتوں کے دوران، آسام حکومت نے غیر قانونی دراندازی کا لیبل لگا کر ہزاروں بنگالی مسلمانوں کے گھر ڈھا دیے ، جبکہ تنقید کو پراپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کر رہے ہیں۔بھوشن نے جواب دیا: ’’ہر چیز دراندازی کے پردے کے پیچھے چھپائی جا رہی ہے۔ اگر وہ لوگ غیر قانونی طور پر داخل ہوئے ہیں، تو انھیں واپس بھیجنے کے قانونی طریقے موجود ہیں۔ شرما کی حکومت ان میں سے کوئی طریقہ نہیں اپنا رہی ہے۔‘‘اس دورے اور آنے والی رپورٹ کا مقصد ان بے دخلیوں، حراستوں، اور آسام کی اقلیتوں اور قبائلی برادریوں کی شہریت اور شناخت سے محرومی کے وسیع تر حقائق کو دستاویزی شکل دینا ہے۔