ڈونالڈ ٹرمپ کے مشیر پیٹر نیوارو نے ایک بار پھر ہندوستان کے خلاف لب کشائی کی ہے۔ لب کشائی ہی نہیں کی، اس بار دھمکی دی ہے کہ اگر نئی دہلی نے کسی صورت تجارتی معاہدہ نہ کیا تو اُسے بہت مہنگا پڑے گا۔
EPAPER
Updated: September 10, 2025, 2:01 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ڈونالڈ ٹرمپ کے مشیر پیٹر نیوارو نے ایک بار پھر ہندوستان کے خلاف لب کشائی کی ہے۔ لب کشائی ہی نہیں کی، اس بار دھمکی دی ہے کہ اگر نئی دہلی نے کسی صورت تجارتی معاہدہ نہ کیا تو اُسے بہت مہنگا پڑے گا۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے مشیر پیٹر نیوارو نے ایک بار پھر ہندوستان کے خلاف لب کشائی کی ہے۔ لب کشائی ہی نہیں کی، اس بار دھمکی دی ہے کہ اگر نئی دہلی نے کسی صورت تجارتی معاہدہ نہ کیا تو اُسے بہت مہنگا پڑے گا۔ ’’مہنگا پڑے گا‘‘ کیلئے اُنہوں نے جو الفاظ استعمال کئے وہ ہیں : It will not end well ۔ تجارتی معاہدہ ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ، یہ کل بھی ہوسکتا تھا، آج بھی ہوسکتا ہے مگر واشنگٹن چاہتا ہے کہ اُس کی شرطوں پر ہو۔ شرطیں یکطرفہ ہوں تو کہیں کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا۔ یکطرفہ معاہدہ پر دستخط کرنا جرم کا ارتکاب نہ کرنے کے باوجود اقبالی بیان پر دستخط کرنے جیسا ہے۔ کسی بھی آزاد اور خودمختار ملک کیلئے یہ ناقابل قبول ہے۔ عالمی سطح پر مختلف ملکوں کے درمیان سفارت ہوتی ہی اس لئے ہے کہ گفت و شنید ہو، افہام و تفہیم ہو اور کوئی درمیانی راہ نکلے جس سے متعلقہ ملکوں کے مفادات محفوظ بھی رہیں اور وہ ایک دوسرے کو فائدہ بھی پہنچائیں ۔
اسی لئے سفارتی عمل غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اسی لئے دُنیا بھر کے ملکوں میں سفارت خانے قائم کئے جاتے ہیں اور سفیر مقرر کئے جاتے ہیں ۔ ٹرمپ نے سفارت کو بالائے طاق رکھ دیا اور بھول گئے کہ اُن کے پیش رو تھیوڈور روزویلٹ نے سفارت کے فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’لہجہ نرم اور ہاتھ میں چھڑی رکھو، آپ بہت دور تک جائینگے۔‘‘ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ نے روزویلٹ کی بات نہ تو پوری سنی ہوگی نہ ہی خود کو اُس پر عمل کیلئے آمادہ پایا۔ اُنہوں نے خود کو ’’ہاتھ میں چھڑی‘‘تک محدود رکھا مگر جلد ہی محسوس کیا یا کسی نے محسوس کروایا کہ سپرپاور ملک کا صدر دُنیا کا سب سے طاقتور شخص ہوتا ہے، وہ ہاتھ میں چھڑی کیوں رکھے، اُسے تو ہنٹر رکھنا چاہئے۔ یہ بات اُن کے دل کو بھاگئی اور اُنہوں نے ہنٹر سنبھال لیا۔ پھر جب جاپان، ویتنام وغیرہ نے ہنٹر چلنے سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیئے تو ٹرمپ کی جعلی خود اعتمادی نے بڑی چھلانگ لگائی، پھر اُنہوں نے ہنٹر کو اس احتیاط کے ساتھ اپنی شخصیت کا جزو بنالیا کہ جہاں ہنٹر کے جواب میں ہنٹر نکلتا ہے وہاں خاموش ہوجاتے ہیں اور اضافی ٹیرف کے نفاذ کو مؤخر کردیتے ہیں جیسا کہ چین کے ساتھ ہوا مگر ہنٹر کے جواب میں ہنٹر نہیں نکلتا بلکہ درِ پردہ سفارت (بیک ڈور ڈپلومیسی) کے ذریعہ حل نکالنے کی کوشش ہوتی ہے تب بپھرنے، بگڑنے، ڈرانے اور دھمکانے لگتے ہیں ۔ ہمارے ساتھ اُن کا یہی طرز عمل ہے۔
اس طرز عمل کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے نیواروؔ کو نئی دہلی کے خلاف آئے دن گستاخانہ بیان دینے پر مامور کردیا چنانچہ نیوارو نے پھر ایک بار نئی دہلی کو کریملن کا ’’لانڈرومیٹ‘‘ قرار دیاہے۔ یہ نئی دہلی کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے۔ سفارت کی لغت میں ’’نیچا دکھانا‘‘ کہیں درج نہیں ہے، اس میں نرم خوئی، شائستگی، خوش اطواری اور اتفاق و اعتدال کا حد درجہ خیال رکھا جاتا ہے مگر دُنیا اتنی مادّہ پرست اور تنگ نظر ہوچکی ہے کہ سفارت کی نئی تعریف پر اصرار کے باوجود کوئی ملک ٹرمپ کے خلاف نہ تو اعتراض کررہا ہے نہ احتجاج (سوائے چین اور روس کے)۔ ایسے میں ہر ایک کو جان لینا چاہئے کہ ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کا گورکھ دھندا کسی کے مفاد میں نہیں ۔ اس سلسلے میں ٹرمپ کو بھی متنبہ کرنا چاہئے ورنہ وہ سفارت کی شکل اس حد تک بگاڑ دیں گے کہ اس کو پہچاننا مشکل ہوجائے گا۔