Updated: September 10, 2025, 5:59 PM IST
| Doha
اسرائیلی حملے کے بعد قطر نے پورے خطے سے جوابی کارروائی کا مطالبہ کیا، ساتھ ہی اقوام متحدہ میں اسرائیلی جارحیت کی شکایت کی، جبکہ ٹرمپ نے ائندہ اس قسم کا حملہ نہ ہونے کا یقین دلایا، یورپی یونین نے بھی دوحہ حملے کی مذمت کی، لیکن امن کی کوششوں کو جاری رکھنے کا بھی مطالبہ کیا۔
دوحہ میں اسرئیلی حملے کے بعد دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔تصویر: آئی این این
قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان آل ثانینے خبردار کیا ہے کہ ان کا ملک دوحہ میں اسرائیل کے مہلک حملے کے جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے، انہوں نے اسے مشرق وسطی کے لیے ’اہم موڑ‘ قرار دیتے ہوئے ’پورے خطے سے ردعمل‘ کا مطالبہ کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے ایسے ہتھیار استعمال کیے جو قطر کے فضائی دفاعی ریڈار سے پکڑ میں نہ آئے۔اس حملے کو انہوں نے ریاستی دہشت گردی قرار دیا۔ساتھ ہی کہا کہ’ ’قطر غزہ میں امن کے حصول کے لیے اپنی ثالثی کوششوں کو جاری رکھے گا۔’کوئی چیز ہمیں خطے میں اس ثالثی کو جاری رکھنے سے نہیں روک سکتی۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ پرقبضے کیلئے اسرائیل کے بہیمانہ حملوں میں شدت
اس حملے کے تعلق سے امریکی صدر ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ قطر پر حملے کا فیصلہ اسرائیلی وزیراعظم نے کیا تھا، امریکہ نے نہیں، انہوں نے مزید کہا، ’’میں نے فوری طور پر خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کو قطر پر ہونے والے حملے سے آگاہ کرنے کا کہا، جسے انہوں نے کیا۔ تاہم، بدقسمتی سے، حملہ روکنے کے لیے بہت دیر ہو چکی تھی۔واضح رہے کہ ٹرمپ کا یہ بیانیہ اس وقت سامنے آیا جب قطر کے خارجہ امور کے محکمے نے وائٹ ہاؤس کے اس دعوے کی تردید کی کہ خلیجی ملک کو اسرائیلی حملے سے پہلے مطلع کیا گیا تھا، جبکہ قطر کی جانب سے دئے گئے بیان میں کہا گیا کہ امریکی اہلکار کی جانب سے رابطہ صرف اس وقت ہوا جب دھماکے ہو رہے تھے۔ بعد ازاں امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کو فون کیا اور انہیں یقین دلایا کہ قطری سرزمین پر ایسا واقعہ دوبارہ نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے: جنگ ختم ہوتے ہی غزہ سے حماس کی حکمرانی ختم ہو جائے گی : محمود عباس
دوحہ پر ہوئے حملے کوقطر نے سنگین خطرہ قرار دے کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نام خط لکھا ۔ اقوام متحدہ میں قطری ایلچی کا کہنا ہے کہ دوحہ ’اس جارحانہ اسرائیلی رویے کو برداشت نہیں کرے گا۔ ریاستی خبررساں ایجنسی قنا کی رپورٹ کے مطابق، خط میں اقوام متحدہ میں قطر کی مستقل نمائندہ شیخہ علیہ احمد بن سعف آل ثانی نے حملے کو ’ایک سنگین واقعہ قرار دیا جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔نمائندہ نے کہا کہ اس وقت اعلیٰ سطح پر تحقیقات جاری ہیں، اور مزید تفصیلات دستیاب ہونے پر جاری کی جائیں گی۔قطری سفیر نے زور دے کر کہا کہ ان کا ملک حملے کی سخت مذمت کرتا ہے اور ’اس جارحانہ اسرائیلی رویے کو برداشت نہیں کرے گا۔
دریں اثناء قطر کے صدر مقام دوحہ میں اسرائیلی حملے کی دنیا بھر کے ممالک نے مذمت کی ہے۔جس میں یورپی حکومتوں نے خبردار کیا ہے کہ اس حملے نے قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے اور اس حملے کے نتیجے میں غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ اسپینی وزارت خارجہ نے بمباری کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’قطری علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی‘‘ قرار دیا، اور پرامن حل اور فوری طور پر سفارت کاری کی طرف واپسی پر زور دیا۔فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے حملے کو ’’ناقابل قبول‘‘ قرار دیتے ہوئے جنگ کو پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلنے سے روکنے کی اپیل کی۔برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا، اور زور دیا کہ ترجیح فوری جنگ بندی، یرغمالوں کی رہائی اور غزہ میں امداد میں اضافہ ہونا چاہیے۔یورپی یونین نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے قطر کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا جس سے تصادم کے مزید بڑھنے کا خطرہ ہے۔اس کے علاوہ یورپی یونین کے متعدد ممالک نے دوحہ حملے کے خلاف مذمتی بیان جاری کئے ہیں، ان میںآئر لینڈز، سلووینیا، اٹلی، بوسنیا و ہرزیگووینا، بیلجیم اور ناروے ،شامل ہیں۔
اس سے قبل اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس نے فلسطینی گروپ کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے ایک درست حملہ کیا تھا۔ جبکہ قطر نے اس ’’بزدلانہ‘‘ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حملے کا نشانہ رہائشی عمارتیں تھیں جہاں حماس کے سیاسی بیورو کے اراکینرہائش پذیر تھے۔تاہم خلیجی ریاست، امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر، اسرائیل کی غزہ پر جنگ ختم کرنے کی ثالثی کی کوششوں میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔