ٹرمپ مودی کی دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن جس طرح کے اقدام انہوں نے پچھلے آٹھ ماہ میں کئے ہیں ان سے لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے دوست نہیں دشمن ہیں۔ نئی دہلی کے خلاف واشنگٹن کی محاذ آرائی میں ٹرمپ کے چمچے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 10, 2025, 1:56 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
ٹرمپ مودی کی دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن جس طرح کے اقدام انہوں نے پچھلے آٹھ ماہ میں کئے ہیں ان سے لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے دوست نہیں دشمن ہیں۔ نئی دہلی کے خلاف واشنگٹن کی محاذ آرائی میں ٹرمپ کے چمچے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
ہنری کسنجر نے کہا تھا:’’ امریکہ سے دشمنی خطرناک ہوسکتی ہے لیکن امریکہ کی دوستی جان لیوا ہے۔‘‘کاش ٹرمپ کے حالیہ بیان پر سرشار ہوکر عجلت میں ردعمل ظاہر کرنے سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی کو سابق امریکی وزیر خارجہ کی یہ وارننگ یاد آجاتی۔ہفتے کے دن ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس میں ایک اخباری نمائندہ کے سوال کے جواب میں کہا کہ مودی جو ایک’’ عظیم وزیر اعظم‘‘ ہیں کے ساتھ ان کی’’دوستی ہمیشہ قائم‘‘ رہے گی۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان اور امریکہ کے رشتے’’بے حد خاص‘‘ ہیں ۔
مودی جی نے جنہوں نے چار ماہ سے ٹرمپ اور امریکہ پر خاموشی اختیار کررکھی تھی،گرم جوشی کے ساتھ فوراًاس کا جواب دے دیا۔بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے جذبات کی نہ صرف تہ دل سے قدر کرتے ہیں بلکہ ان کے لئے بھی اپنے دل میں ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں ۔مودی جی نے یہ بھی اضافہ کردیا کہ انڈیا اور امریکہ کے درمیان انتہائی’’ مثبت اورسمجھ بوجھ پر مبنی جامع اور عالمی اسٹریٹیجک پارٹنر شپ‘‘ہے۔
کیا مودی جی کو زمینی حقائق کا صحیح اندازہ ہے؟ کیا واقعی ٹرمپ مودی کے دوست ہیں ؟ کیا امریکہ ہندوستان کواپنا عالمی اسٹریٹیجک پارٹنر تسلیم کرتا ہے؟کیاایک دوست اور اسٹریٹیجک پارٹنر کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسا سلوک ٹرمپ ہندوستان اور ہندوستانیوں کے ساتھ پچھلے آٹھ ماہ سے کر رہے ہیں ؟ پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی نے تمام تر دباؤ کے باوجود کبھی بھی امریکہ یا مغرب کی اطاعت قبول نہیں کی اور نہ ہی ہندوستان کو کسی بین الاقوامی بلاک کا حصہ بننے دیا۔ نصف صدی سے زائد عرصے تک ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا محور ناوابستگی رہا اور ملک سر بلند رہا۔ہم نے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ رشتے رکھے لیکن ہم ہمیشہ غیر جانبدار رہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے کبھی ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں کی۔ لیکن پچھلے دس برسوں میں ملک کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ امریکہ کی جانب ہوگیا اور اسی لئے آج ٹرمپ ہمیں اپنے قدموں میں جھکانے پر مصر ہیں ۔ مودی جی نے ملک کی دیرینہ خارجہ پالیسی سے انحراف کرکے یہ مصیبت مول لی ہے۔
۲۰۱۹ء میں ہیوسٹن میں ’’ہاؤڈی مودی‘‘ریلی میں مودی جی نے پہلے ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور چند ماہ بعد کروڑوں خرچ کرکے احمدآباد کے کرکٹ اسٹیڈیم میں ’’مائی فرینڈ ‘‘ کے اعزاز میں ایک عظیم الشان کارنیوال کا انعقاد کروادیا۔ یہ دونوں اقدام نہ صرف غیر ضروری تھے بلکہ غیر مناسب بھی تھے۔ جب جب مودی جی واشنگٹن میں قدم رکھتے ہیں ان کی کیفیت ’’آج کل پاؤں زمیں پر نہیں پڑتے میرے‘‘والی ہوجاتی ہے۔ ادھر بھارت میں گودی میڈیا اور بھکت یہ راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں کہ مودی جی نے امریکہ میں اپنے جھنڈے گاڑ دیئے۔ گودی میڈیا کی مانیں تو کولمبس نے نہیں بلکہ امریکہ کو مودی جی نے ہی دریافت کیا ہے۔
ٹرمپ مودی کی دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن جس طرح کے اقدام انہوں نے پچھلے آٹھ ماہ میں کئے ہیں ان سے لگتا ہے وہ ہندوستان کے دوست نہیں دشمن ہیں ۔انہوں نے غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن میں ہندوستانیوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا۔ انہیں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کر بھارت ڈیپورٹ کیا لیکن مودی جی خاموش رہے۔ٹرمپ نے ٹیسلا کار بنانے کا پلانٹ ہندوستان میں لگانے سے ایلون مسک کو روک دیا۔ مودی جی کی عادت ہے کہ جب وہ مشکلوں میں گھر جاتے ہیں تو مکمل طور پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ۔ ۲۰۲۰ء میں گلوان میں جب پیپلزلبریشن آرمی کی جارحیت کے نتیجے میں ہمارے بیس جانباز شہید ہوگئے اور ہماری سرزمین پر چین نے ناجائز قبضہ کرلیا اس کے بعد مودی جی نے چین یا شی جن پنگ کا نام لینا ہی ترک کردیا۔ ۱۰؍ مئی کو ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پر یہ اعلان کیا کہ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ انہوں نے رکوائی ہے اور اس کے بعد وہ لگاتار سیز فائر کا کریڈٹ لینے لگے۔ ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے مودی جی کو سیز فائر کیلئے ۲۴؍ گھنٹے کی مہلت دی تھی لیکن ہندوستان نے جنگ ۵؍ گھنٹوں میں ہی روک دی۔ ٹرمپ کے ان دعوؤں سے مودی حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی رہی لیکن ان کو مسترد کرنے کے بجائے مودی جی نے خاموشی اختیار کرلی۔ پارلیمنٹ میں راہل گاندھی مودی جی کوچیلنج کرتے رہ گئے کہ وہ ایک بار صرف اتنا کہہ دیں کہ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن مودی جی چپ رہے۔ ٹرمپ نے ہندوستان پر پہلے۲۵؍ اور بعد میں ۵۰؍فیصد ٹیرف لگادیا اور ہماری معیشت کو ’’مردہ‘‘ قرار دے دیالیکن مودی جی پھر بھی خاموش رہے۔ ہندوستان کے خلاف واشنگٹن کی محاذ آرائی میں ٹرمپ کے چمچے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔ ٹرمپ کا مشیر پیٹر نوارو ہویا وزیر تجارت ہارورڈ لٹنک یا وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ جس کے جو منہ میں آرہا ہے وہ بکے چلا جارہا ہے۔ٹرمپ اور ان کے رفقاء نے پہلے تو صرف روس سے تیل کی خریداری کیلئے ہمیشہ نشانہ بنایا۔ اس کے بعد وہ یہ الزام لگانے لگے کہ ہندوستان یوکرین کی جنگ کو فروغ دے رہا ہے۔ واشنگٹن نے یوکرین کی جنگ کو’’مودی کی جنگ‘‘ تک قرار دے دیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ان جارحانہ حملوں نے ہندوستان اور امریکہ کے رشتوں کو جس بری طرح بگاڑدیا ہے ایسا پچھلے ۵۰؍برسوں میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھااور نہ ہی آزادی کے بعدسے اب تک بین الاقوامی فورم پر پہلے ہمیں کبھی ایسے ذلیل کیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے : ’امریکہ بھی ٹھیک اور چین بھی ٹھیک‘ کی پالیسی
پچھلے ہفتے چین میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم پر شی جن پنگ، ولادیمیر پوتن اور نریندر مودی کو ایک ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیکھ کر ٹرمپ کی نیند اڑ گئی۔ انہوں نے خود اعتراف بھی کیا کہ امریکہ نے روس اور انڈیا کو چین کے ہاتھوں کھودیا ہے۔ ٹرمپ ایک عیار لیڈر اور مکار بیوپاری ہیں اس لئے ان کے نئے ’’مثبت‘‘ بیان کے جھانسے میں آنے سے قبل مودی جی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ٹرمپ نے محض پینترا بدلا ہے فیصلہ نہیں ۔ انہوں نے انڈیا کو نہ تو کوئی رعایت دی ہے اور نہ ہی ٹیرف میں تخفیف کا اشارہ۔ٹرمپ کے ’’مثبت‘‘ بیان کے فوراً بعد وزیر تجارت ہارورڈ لٹنک نے دعویٰ کیا کہ دو ماہ میں بھارت خود بخود لائن پرآجائے گا اور ٹرمپ کے دربار میں حاضر ہوکر معافی مانگے گا۔پہلے صرف روس سے تیل کی خریداری بند کرنے کا مطالبہ تھا اب ہمیں برکس سے علاحدگی اختیار کرنے کے لئے بھی کہا جارہا ہے۔
پیر کی شام جب میں یہ کالم مکمل کررہا ہوں مشیر نوارو نے دھمکی دی ہے کہ اگر ہندوستان نے امریکہ کا حکم نہیں مانا تو نتیجہ برا ہوگا۔ بھکت پچھلے دس برسوں سے دعویٰ کررہے ہیں کہ مودی جی کا ’’نیو انڈیا‘‘ وشو گرو بن گیا ہے۔ ہمیں ایسا نیو انڈیا نہیں چاہئے جسے دو ٹکے کا امریکی اہلکار نتیجہ بھگتنے کی دھمکی دے۔کاش کوئی ہمارا پرانا بھارت ہمیں لوٹا دے۔