اسرائیل ہی نہیں ، اس کے کسی بھی ہمنوا، پشت پناہ، آقا اور مددگار کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ ایران کے سامنے اِتنی جلدی اُس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ جائینگے۔تہران نے محدود وسائل کے باوجود صرف ایک ہفتے میں تل ابیب کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔
EPAPER
Updated: June 21, 2025, 1:30 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
اسرائیل ہی نہیں ، اس کے کسی بھی ہمنوا، پشت پناہ، آقا اور مددگار کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ ایران کے سامنے اِتنی جلدی اُس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ جائینگے۔تہران نے محدود وسائل کے باوجود صرف ایک ہفتے میں تل ابیب کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔
اسرائیل ہی نہیں ، اس کے کسی بھی ہمنوا، پشت پناہ، آقا اور مددگار کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ ایران کے سامنے اِتنی جلدی اُس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ جائینگے۔تہران نے محدود وسائل کے باوجود صرف ایک ہفتے میں تل ابیب کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔ چار ہی دن بعد اسے دال آٹے کا بھاؤ معلوم پڑ گیا تھا جس کے سبب وہ فوری طور پر واشنگٹن کی جانب دوڑا کہ میری مدد کیجئے ورنہ مَیں تباہ ہوجاؤں گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل، بلاشبہ بڑی حربی طاقت ہے، مگر اس کی صلاحیت چھوٹی جنگیں لڑنے تک محدود ہے، وہ بڑی جنگ کی تاب نہیں رکھتا بالخصوص ایسی جنگ جو زیادہ عرصہ تک جاری رہ سکتی ہو۔
یہ بات کتنی سچی ہے اس کا اندازہ محض ایک ہفتے میں ہوگیا۔ بلاشبہ ایران کا کافی نقصان ہوا ہے مگر ایران نے اسرائیل کا جتنا نقصان کیا ہے وہ کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھا۔خود نیتن یاہو پچھتا رہے ہوں گے کہ اُنہوں نے ایران پر کیوں حملہ کیا۔ مٹھی بند تھی تو لاکھ کی تھی، کھل گئی تو خاک کی ہوگئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ روس نے بھی دھمکا دیا ہے اور چین نے بھی۔ اس کے باوجود اگر نیتن یاہو نے جنگ بندی کی جانب قدم نہیں بڑھائے یا امریکہ نے اُنہیں سمجھانے میں کسر چھوڑ دی تو وہ سیدھے سیدھے دُنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیلیں گے۔ یہ بات امریکہ کی بھی سمجھ میں آگئی ہے اور اس کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ جو سوچتے بعد میں ہیں ، قدم پہلے اُٹھاتے ہیں ، پندرہ دِنوں کا وقت لینے پر مجبور ہوگئے یہ کہتے ہوئے کہ اُن کا ملک آئندہ پندرہ دن میں جنگ میں شمولیت کا فیصلہ کرے گا۔
معلوم ہوا کہ اسرائیل کے اوسان خطا ہوگئے اور امریکہ کی بولتی بند ہوگئی ورنہ اسرائیل ایران کے سپریم لیڈر کی جان کے درپے تھا اور امریکہ تہران خالی کرنے کی وارننگ دے چکا تھا۔ اس کالم میں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ نتین یاہو کے لئے جنگ، اسرائیل کے اندرونی مسائل پر پردہ ڈالنے اور اُن سے نمٹنے کا بہانہ بھی ہے۔ اسرائیل کی معیشت کی حالت خستہ ہے، اندرونی خلفشار بھی کافی ہے، لوگ باگ معاشی مسائل کے سبب بے چین رہتے ہیں ، عدالتی اصلاحات کے بل پر ان کی ناراضگی اُنہیں سڑکوں پر لے آئی تھی اور غزہ جنگ سے پہلے تک ہر سنیچر کو تل ابیب اور دیگر شہروں میں لاکھوں شہری احتجاج کی غرض سے یکجا ہوتے تھے، اسرائیل نے ٹیکنالوجی میں جو مہارت حاصل کی وہ اُس کے اپنے لوگوں کی مرہون منت ہے مگر ملک کے مخدوش حالات کے پیش نظر نئی نسل کے تعلیم یافتہ افراد نے دیگر ملکوں کو ترجیح دی اور وہاں جاکر رہنے لگے۔ اسے ’’برین ڈرین‘‘ کہتے ہیں ۔ اسرائیلی شہری اس بات سے بھی ناخوش ہیں کہ نتین یاہو جنگ ہی کی باتیں کیوں کرتے ہیں ۔ وہ غزہ کی جنگ سے بھی ناخوش تھے اور اب ایران سے جنگ کے بھی حق میں نہیں ہیں ۔ اُن کے اپنے عوام اس لئے جنگ کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں کہ وہ اپنے ملک کو عالمی نقشے پر یکہ و تنہا پڑتے دیکھ رہے ہیں ۔ جن ممالک نے اسرائیل میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لی اب وہ ہاتھ کھینچ رہے ہیں ۔ یہ عمل بتدریج جاری ہے، ایسا نہیں کہ ایران سے جنگ میں کمزور پڑنے کے سبب ہورہا ہے۔ کوئی بھی سرمایہ کار جب کہیں سرمایہ لگاتا ہے تو استحکام دیکھتا ہے۔ تل ابیب استحکام کی ضمانت دینے میں ناکام ہے۔کیا یہ اسرائیل کے انجام کا آغاز نہیں ہے؟اگر ابھی آغاز نہیں ہوا ہے تو عنقریب نیتن یاہو کی معزولی سے ہوگا، دیکھتے رہئے۔