• Fri, 12 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیلی جارحیت بے لگام!

Updated: September 12, 2025, 1:59 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اِسرائیل نہ تو خود رُک رہا ہے نہ ہی کوئی اُسے روک رہا ہے۔ اس کی بے لگام جارحیت کی وجہ سے غزہ کی محصور آبادی کواس قدر تباہی و تاراجی اور جان و مال کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے کہ اسے چند سطروں میں ضبط تحریر میں نہیں لایا جاسکتا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اِسرائیل نہ تو خود رُک رہا ہے نہ ہی کوئی اُسے روک رہا ہے۔ اس کی بے لگام جارحیت کی وجہ سے غزہ کی محصور آبادی کواس قدر تباہی و تاراجی اور جان و مال کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے کہ اسے چند سطروں   میں   ضبط تحریر میں   نہیں   لایا جاسکتا۔ یہ جنگ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں   شروع ہوئی تھی۔ ٹرمپ نے جنوری ۲۵ء میں   جب بحیثیت صدرِ امریکہ اقتدار سنبھالا تب اُن کا رجحان جنگوں   کو روکنے کا تھا۔ اب بھی اُنہیں   یوکرین جنگ ختم کروا کر روس کو ’’راہ راست‘‘ پر لانے سے دلچسپی ہے مگر وہ غزہ کے خلاف اسرائیل کو نہیں   روکنا چاہتے۔ اس لئے چشم پوشی کررہے ہیں   تاکہ اسرائیل جو چاہتا ہے کرتا رہے۔ اس طرز عمل سے حوصلہ پا کر تل ابیب امن و انسانیت کا دشمن بن کر اسلحہ لہراتا اور اقوام متحدہ کو چیلنج کرتا ہوا گھوم رہا ہے۔ اس کا تازہ ہدف قطر ہے مگر قطر پر آنے سے پہلے تل ابیب کی اس بدنیتی کو سمجھنا ضروری ہے کہ اس کا مقصد غزہ کی زمین ہتھیانا ہے۔ اس کیلئے وہ طرح طرح کے حربے آزما رہا ہے جن میں   مصنوعی قحط پیدا کرکے عوام کو بھوک سے مارنا بھی شامل ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے خلاف ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے کہ انہیں   جنگی جرائم قرار دینے میں   کسی کو تامل نہیں   ہوسکتا مگر پوری عالمی برادری بے حس بنی بیٹھی ہے۔ اس دوران اسرائیلی جارحیت نے پر پُرزے پھیلائے اور غزہ کے ساتھ ساتھ دیگر ملکوں   کو بھی نشانہ بنایا جن میں   ایران، لبنان، شام اور یمن کے نام فوری طور پر ذہن میں   آتے ہیں  ۔ ان میں   ایران کی جنگ سے امریکہ کی اسرائیل نوازی پر ایک بار پھر مہر تصدیق ثبت ہوئی جب جنگ میں   خود امریکہ کود پڑا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ تل ابیب کو روکتا کہ تہران پر بلا اشتعال جنگ کیوں   مسلط کی گئی مگر خود حملہ آور بن کر اُس نے اسرائیلی شیطنت کو گویا جواز عطا کرنے کی کوشش کی۔
 جہاں   تک قطر پر ایئر اسٹرائیک کا سوال ہے تو یہ بھی بلااشتعال ہے۔ تل ابیب کا مقصد حماس کے نمائندوں   کو ہدف بنانا تھا جو غزہ میں   جنگ بندی پر گفت و شنید کیلئے یکجا ہوئے تھے۔ مصر کی ایماء پر اس گفت و شنید کو امریکہ کی تائید حاصل ہے مگر صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ امریکہ کی چال ہے۔ وہ قیام امن کا حصہ بھی بنا رہنا چاہتا ہے اور جنگ جاری رکھنے کی درِ پردہ حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ ہم یہ ماننے کو تیار نہیں   ہیں   کہ واشنگٹن کو دوحہ (قطر) پر اسرائیلی حملے کی پہلے سے اطلاع نہیں   تھی یا یہ فضائی حملے واشنگٹن کی مرضی کے بغیر ہوئے۔ اس ضمن میں   ملحوظ رہنا چاہئے کہ قطر امریکہ کا حلیف ہے۔ اِن دو ملکوں   کے اربوں   ڈالر کے پروجیکٹس ہیں  ۔ قطر میں   امریکی سفارتخانے کی نئی عمارت تعمیر ہو رہی ہے۔ سب جانتے ہیں   کہ ٹرمپ نے دوسری بار صدر بننے کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ جو کیا تو اُس میں   سعودی اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ قطر بھی شامل تھا ( ۱۳؍ تا ۱۶؍ مئی)۔ اس تناظر میں   غلط نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ قطر پر حملہ کرکے اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب تو ہوا ہے جس کی وہ پروا نہیں   کرتا مگر ان حملوں   کی وجہ سے امریکہ کا دوغلا پن بھی آشکار ہوا ہے جس سے اُن ملکوں   کو سبق لینا چاہئے جو امریکہ سے دوستی کو اپنے تحفظ کیلئے آئرن ڈوم جیسی کوئی چیز مانتے ہیں  ۔ قطرپر حملہ عرب ملکوں   کیلئے خاص طور پر بڑا چیلنج ہے۔ یہ عالم عرب کی غیرت کو للکارنے جیسی حرکت بھی ہے۔کیا عرب ممالک اب بھی تل ابیب اور واشنگٹن سے دوٹوک بات نہیں   کرینگے؟ 

israel qatar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK