پہلگام میں سیاحوں پر دہشت گردانہ حملہ ایسا مذموم عمل تھا کہ اس کے جواب میں ہندوستان فوراً فوج کشی کرلیتا تب بھی پورا ملک اس کے ساتھ تھا اور کہیں سے کوئی اختلافی آوازنہ آتی۔
EPAPER
Updated: May 08, 2025, 3:41 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
پہلگام میں سیاحوں پر دہشت گردانہ حملہ ایسا مذموم عمل تھا کہ اس کے جواب میں ہندوستان فوراً فوج کشی کرلیتا تب بھی پورا ملک اس کے ساتھ تھا اور کہیں سے کوئی اختلافی آوازنہ آتی۔
پہلگام میں سیاحوں پر دہشت گردانہ حملہ ایسا مذموم عمل تھا کہ اس کے جواب میں ہندوستان فوراً فوج کشی کرلیتا تب بھی پورا ملک اس کے ساتھ تھا اور کہیں سے کوئی اختلافی آوازنہ آتی۔ دُنیا کے بیشتر ممالک بھی اس کا ساتھ دیتے کیونکہ ہندوستان کو اپنے تحفظ کا پورا اختیار ہے مگر ہندوستان نے دانشمندانہ طرز عمل اختیار کیا، حالات کو سمجھنے کی کوشش کی، دوست ممالک کو اعتماد میں لینے کیلئے سفارتی عمل کو تیز کیا اوراس وعدہ پر بیشتر ملکوں کو رضامند کرلیا کہ کارروائی محدود اور تیر بہدف ہوگی جس میں شہری آبادی، اہم شہری مراکز یا شہری سہولیات کی تنصیبات کو ہدف نہیں بنایا جائیگا۔ اس طرح نئی دہلی نے تمام سفارتی تدابیر اپنائیں اور ایک ذمہ دار ملک کی اپنی شبیہ کو مستحکم کیا۔
منگل اور بدھ کی درمیانی شب میں ہندوستان کی جوابی کارروائی میں صرف اور صرف دہشت گردی کے مراکز کو نشانہ بنانے کی خبراس قابل ہےکہ اس کا خیرمقدم کیا جائے۔ اطلاع کے مطابق ۲۶؍ مقامات پر کارروائیاں کی گئی ہیں۔ اگر اس سے زیادہ کی گئی ہوتیں تب بھی پورا ملک اس کا خیرمقدم کرتا۔
ہمیں یاد ہے، ۲۰۰۸ء کے ممبئی حملوں کے بعد، جن سے پورا ملک دہل گیا تھا اور جو ہندوستان کے خلاف اعلان جنگ جیسے تھے، اُس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کی سرزمین کو ہندوستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینگے۔ موجودہ وزیر اعظم کوئی اور نہیں، اُن کے برادر خورد شہباز شریف ہی ہیں مگر ہندوستان کے خلاف کارروائیاں نہ تو تب رکی تھیں نہ ہی اس کے بعد رکی ہیں۔ رک جاتیں تو پلوامہ ہوتا نہ ہی پہلگام۔ اسی لئے اُن عناصر کے خلاف سخت جوابی آپریشن ضروری تھا جو ہندوستان کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں، اس کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں اور اس کی معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کے خلاف سازش کرتے رہتے ہیں۔
اُمید کی جانی چاہئےکہ عالمی برادری ہندوستان کے تحمل اور محتاط طرز عمل کی ستائش کرے گی اور اسے ایک نظیر کے طور پر پیش کریگی تاکہ عالمی نقشے پر جہاں جہاں بھی تنازعات ہیں اور اسلحہ بازی شروع ہوجاتی ہے وہاں وہاں تحمل اور احتیاط کے ہندوستانی فارمولے کی مثال دی جائے۔ہندوستان کی جوابی حملے کی طاقت اور اہلیت کسی سے مخفی نہیں۔ ہندوستان دُنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج اور چوتھی سب سے بڑی اسلحہ جاتی (ملٹری پاور) طاقت ہے۔ اس میں بھرپور جواب دینے کی غیر معمولی قوت ہے۔ اس کے باوجود محدود اور محتاط کارروائی کو فوقیت دے کر اس نے وزیراعظم مودی کے اُس موقف کو عملاً برتا ہے جس کا اظہار اُنہوں نے روسی سربراہ پوتن پر یہ کہہ کر کیا تھا کہ ’’یہ دور جنگ کا نہیں ہے‘‘ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی سے یہ کہہ کر کہ ’’محاذ جنگ کی فتح سے مسائل کا دیرپا حل نہیں نکلتا۔‘‘
پاکستان کو چاہئے کہ مذکورہ محدود کارروائی کی حکمت کو سمجھے، اس کا احترام کرتے ہوئے سفارتی طریقۂ عمل اپنائے اور خالی خولی اعتماد دلانے سے زیادہ عملاً وہ کرکے دکھائے جس کا وعدہ نواز شریف نے کیا تھا او رجسکا ذکر اوپر آچکا ہے۔ جنگ حل نہیں ہے۔ سابق وزیر اعظم واجپئی نے کہا تھا ’’ہم دوست منتخب کرسکتے ہیں پڑوسی نہیں ‘‘۔ جب پڑوسی منتخب نہیں کئے جاسکتے اور بدلے بھی نہیں جاسکتے تو ضروری ہے کہ ہمسائیگی کے آداب سیکھے جائیں ۔ کاش اسلام آباد یہ نکتہ سمجھے!