نظام ٹھیک نہ ہو تو افراد مل بیٹھ کر اسے ٹھیک کرسکتے ہیں مگر افراد کا طور طریقہ ٹھیک نہ ہو، نیت درست نہ ہو اور وہ نظام کا حصہ بن کر نظام کو کمزور کرنے کی ٹھان لیں تو اُن کی ٹھیکیداری زیادہ عرصہ تک نہ چلنے کے باوجود، وہ جتنے دن بھی منصہ شہود پر رہتے ہیں ، نظام کو یرغمال بنائے رہتے ہیں
نظام ٹھیک نہ ہو تو افراد مل بیٹھ کر اسے ٹھیک کرسکتے ہیں مگر افراد کا طور طریقہ ٹھیک نہ ہو، نیت درست نہ ہو اور وہ نظام کا حصہ بن کر نظام کو کمزور کرنے کی ٹھان لیں تو اُن کی ٹھیکیداری زیادہ عرصہ تک نہ چلنے کے باوجود، وہ جتنے دن بھی منصہ شہود پر رہتے ہیں ، نظام کو یرغمال بنائے رہتے ہیں ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس وقت جو کچھ کررہے ہیں وہ ایک ایسے نظام کو جو نہ تو بہت مستحکم تھا نہ ہی مبنی برانصاف مگر اس کے ہونے سے ایک سرپرست ادارہ کا احساس برقرار تھا، حاشئے پر لانے کی کوشش ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب مغرب کے بہت سے ممالک اپنی معیشت کیلئے فکرمند تھے، ’’جنرل ایگریمنٹ آن ٹیریفس اینڈ ٹریڈ‘‘ (جی اے ٹی ٹی) یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو قائم کیا گیا تھا تاکہ عالمی تجارت منظم کی جائے۔ یہ ادارہ سرگرم عمل رہا مگر اس پر ترقی یافتہ ملکو ں کی تائید و حمایت کا الزام عائد ہوا۔
۱۹۹۵ء میں اس نے عالمی ادارۂ تجارت (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کی شکل اختیار کی جو گزشتہ چالیس برس سے عالمی تجارت کے نگراں ادارہ کی حیثیت سے موجود اور سرگرم عمل ہے۔ اگرچہ اسے نظام کہنا درست نہیں کیونکہ یہ محض ایک ادارہ ہے مگر اس کی حیثیت ایک نظام کی علامت کے طور پر ضرور ہے۔ یہ بھی اس لئے بے اثر ہے کہ اس پر بھی بہتیرے الزام عائد ہوئے بشمول اس کے کہ ڈبلیو ٹی، ترقی یافتہ ملکوں کی زیادہ فکر کرتی ہے، بڑی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کا مفاد خاص طور پر ملحوظ رکھتی ہے اور مزدوروں کے معاملات و مسائل کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔
یہ داستان چار دہائیوں سے جاری تھی کہ جنوری ۲۵؍ میں ڈونالڈ ٹرمپ دوسری میعاد کیلئے صدر بن کر آئے اور پہلے دن سے خود کو ڈبلیو ٹی او سے بڑا ادارہ مان کر عالمی تجارت کو اپنے مفادات کیلئے ہانکنے کا سلسلہ شروع کیا۔ جنوری سے اب تک صرف سات ماہ گزرے ہیں اور ان سات مہینوں میں اُنہوں نے عالمی تجارت کو تہ و بالا کردیا ہے۔ اکثر ممالک اُن کی ٹیریف پالیسی سے پریشان ہیں اور پس و پیش میں ہیں کہ اُن کے اعلانات و اقدامات کے خلاف پیکار کی جائے یا کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جائے۔ چند ملکوں نے راضی بہ رضا ہونے کا اعلان کردیا، چند مخمصے میں ہیں اور چند نے اپنے تیور سخت کرلئے تو ٹرمپ نرمی برتنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور کہا نہیں جاسکتا کہ ٹرمپ کی اس دھاندلی سے عالمی تجارت کو کتنا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کہیں سے کوئی آواز نہیں اُٹھ رہی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ اختیار کس نے دے دیا کہ وہ عالمی ادارۂ تجارت (ڈبلیو ٹی او) کو حاشئے پر ڈال دیں ۔
ٹرمپ کی اس دھاندلی سے عالمی تجارت کو جو نقصان ہوگا سو ہوگا، وطن عزیز کیلئے بھی بڑے مسائل کا اندیشہ ہے۔ اب تک ہماری حکومت خاموش تھی اور ٹرمپ کی دھمکیوں کا جواب دینے سے گریز کر رہی تھی مگر اب اس نے بھی پوزیشن لے لی ہے جو بہت دوٹوک نہیں ہے مگر ابتداءً ٹھیک ہے۔ مثلاً وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے، غالباً پہلی بار، جواباً کہا کہ ’’یورپ کا روس سے تجارتی تعلق ہندوستان سے زیادہ ہے‘‘ ( مگر آپ یورپ کو کچھ نہیں کہتے) اور ’’اگر آپ کو ہندوستان سے نہیں خریدنا ہے تو مت خریدیئے۔‘‘ یہی تیور پہلے دن سے اپنانا چاہئے تھا۔ بہرحال ٹرمپ کی دھاندلی رُکنی چاہئے، ڈبلیو ٹی او کو بھی اپنے وقار کا خیال رکھنا چاہئے۔