ایک حالیہ غیر جانبدار سروے میں ٹرمپ کو ایک ”خطرناک آمر“ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ ان کے بے لگام اختیارات، امریکی جمہوریت کو ختم کر سکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: August 26, 2025, 9:01 PM IST | Washington
ایک حالیہ غیر جانبدار سروے میں ٹرمپ کو ایک ”خطرناک آمر“ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ ان کے بے لگام اختیارات، امریکی جمہوریت کو ختم کر سکتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر کو دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈز کی تعیناتی اور امریکی پرچم جلانے والے افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کے اپنے متنازع اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ “بہت سے امریکی، آمر کو پسند کرتے ہیں۔” وائٹ ہاؤس واپس آنے سے پہلے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے خود پر لگائے جارہے آمریت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وہ “کامن سینس (عام فہم)” کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ امریکی صدر نے کہا کہ ”بہت سے امریکی کہہ رہے ہیں کہ شاید ہم ایک آمر کو پسند کرتے ہیں۔ میں ایک آمر کو پسند نہیں کرتا۔ میں ایک آمر نہیں ہوں۔ میں ایک بہت زیادہ عام فہم والا شخص اور ایک ذہین انسان ہوں۔“
ٹرمپ کے یہ تبصرے اس وقت سامنے آئے ہیں جب دوبارہ صدر منتخب ہونے کے ”پہلے ہی دن ایک آمر“ کے طور پر کام کرنے کا اعلان کرنے کے بعد وہ بڑھتی ہوئی تنقید کی زد میں ہیں۔ ایک حالیہ غیر جانبدار سروے نے تو انہیں ایک ”خطرناک آمر“ قرار دیا اور خبردار کیا کہ ان کے بے لگام اختیارات، امریکی جمہوریت کے خاتمے کا باعث بن سکتے ہیں۔
ٹرمپ نیشنل گارڈز کیوں تعینات کر رہے ہیں؟
ٹرمپ کے حکمنامے میں عہدیداروں کو وفاقی قانون نافذ کرنے کیلئے نیشنل گارڈز کو ”تعینات“ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ واشنگٹن میں پہلے ہی تقریباً ۲ ہزار اہلکاروں کو متحرک کیا جا چکا ہے جن کی کچھ تعداد مسلح ہیں۔ انہوں نے شکاگو اور بالٹی مور میں بھی فوج بھیجنے کا اشارہ کیا۔ اس سے پہلے، جون میں ٹرمپ نے مقامی لیڈران کی خواہشات کے خلاف مغربی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں گارڈز کو تعینات کیا تھا۔
اگرچہ ٹرمپ، اس کارروائی کو دارالحکومت میں جرائم سے نمٹنے کے مقصد سے جوڑ رہے ہیں، لیکن اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ حالیہ برسوں میں شہر میں جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی سیکوریٹی کے بارے میں کم اور ۲۰۲۶ء کے انتخابات سے پہلے سیاسی طاقت کو مضبوط کرنے کے بارے میں زیادہ ہے۔
’آمر یہی کم کرتے ہیں‘: ڈیموکریٹس کا شدید ردعمل
ڈیموکریٹس نے فوری طور پر ٹرمپ کے احکامات کی مذمت کی اور ان کا موازنہ آمرانہ ہتھکنڈوں سے کیا۔ سینیٹر ایڈ مارکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ٹرمپ اپنی گرتی ہوئی مقبولیت پر پردہ ڈالنے کیلئے شہروں کو ”فوجی چھاؤنیاں “ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزم نے بھی ٹرمپ پر ”امریکہ پر آمرانہ قبضہ کرنے کی تیاری“ کا الزام لگایا۔
ٹرمپ نے وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کو ہدایت دی کہ وہ ملک بھر میں شہری ہنگاموں کو دبانے کیلئے تمام ریاستی گارڈ یونٹس کے تیار رہنے کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے پینٹاگون کا نام واپس “ڈپارٹمنٹ آف وار” رکھنے کا بھی مشورہ دیا جو اس کے دوسری جنگ عظیم کے دور کے عنوان کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، قانونی ماہرین نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کے اس حکم کو پوسی کومیٹاٹس ایکٹ کے تحت چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو شہری قانون نافذ کرنے میں وفاقی فوجیوں کے کردار کو محدود کرتا ہے۔
امریکی پرچم جلانے والوں پر اب کارروائی ہوگی
ٹرمپ نے ایک الگ حکم نامے میں امریکی پرچم جلانے پر پابندی عائد کردی ہے۔ اب محکمہ انصاف، امریکی پرچم جلانے والوں کے خلاف مقدمہ چلائے گا۔ ٹرمپ کا یہ حکم، امریکی سپریم کورٹ کے ۱۹۸۹ء کے ایک فیصلے کے خلاف ہے جس میں پرچم کی بے حرمتی کو آزادئ اظہار کے طور پر تحفظ دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود، ٹرمپ کا اصرار ہے کہ پرچم جلانا ہنگامے کو ہوا دیتا ہے۔ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ”اگر آپ ایک پرچم جلاتے ہیں، تو آپ کو ایک سال کی جیل ہوگی، کوئی جلدی رہائی نہیں، کچھ نہیں۔“ ان کے حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ غیر ملکی شہری جو پرچم جلاتے ہیں وہ ویزا، رہائش یا شہریت کھو سکتے ہیں اور انہیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
شہری آزادی کے میدان میں سرگرم تنظیموں اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حکم غیر آئینی ہے۔ سپریم کورٹ نے ٹیکساس بمقابلہ جانسن (۱۹۸۹ء) میں ۵-۴ کی اکثریت سے فیصلہ سنایا تھا کہ پرچم جلانا، پہلی ترمیم کے تحت محفوظ ہے۔ قدامت پسند جسٹس انٹونین اسکالیا نے بھی اکثریت کا ساتھ دیا تھا۔