للن سنگھ، نتیش کمار کے دست راست رہے ہیں مگر دسمبر ۲۳ء میں پارٹی کی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد اُن کے تیور بدل گئے حالانکہ نتیش کمار نے صدارت چھین لینے کے بعد اُنہیں مرکزی وزارت دلوائی تھی۔
للن سنگھ، نتیش کمار کے دست راست رہے ہیں مگر دسمبر ۲۳ء میں پارٹی کی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد اُن کے تیور بدل گئے حالانکہ نتیش کمار نے صدارت چھین لینے کے بعد اُنہیں مرکزی وزارت دلوائی تھی۔ایک طرف وہ بی جے پی سے قربت کی شکل میں نتیش کی عنایات کا جواب دےر ہے ہیں ، دوسری طرف جے ڈی یو کے وزیر کی حیثیت سے مرکز میں ماہی و مویشی پروری اور ڈیریز کا قلمدان سنبھال رہے ہیں ۔ نتیش کمار کی پارٹی کے جن لیڈروں پر بی جے پی سے ساز باز کا الزام لگایا جارہا ہے اُن میں للن سنگھ کا نام نامی بھی شامل ہے۔ یہاں تک کی کیفیت شک و شبہ پر مبنی تھی مگر اب، جبکہ وہ جے ڈی یو کے طریق عمل کے خلاف بیانات دے رہے ہیں ، ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ اُن کی شخصیت کا کتنا حصہ جے ڈی یو میں ہے اور کتنا بی جے پی کے ساتھ۔ حال میں اُن کا جو ویڈیو سامنے آیا ہے، چونکانے والا ہے۔ ویڈیو میں وہ، اپنے حامیوں سے یہ کہتے ہوئے سنائی اور دکھائی دے رہے ہیں کہ ’’کچھ لوگ ہیں جنہیں ووٹنگ کے دِن گھر سے باہر نہیں نکلنے دینا ہے۔انہیں گھر میں بند کردینا ہے اور اگر بہت ضد کریں تو پکڑ کر ووٹنگ سینٹر تک لے جاؤ اور واپس گھر لاکر چھوڑ دو۔‘‘ ہمارے لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ ’’پکڑ کر لے جاؤ اور گھر واپس لاکر چھوڑ دو‘‘ سے اُن کی کیا مراد ہے مگر پہلے جملے کا مفہوم واضح ہے۔ وہ اُن رائے دہندگان کو روکنے کی ہدایت کررہے تھے جو مخالف ووٹر ہیں یعنی جن کے ووٹ این ڈی اے کو نہیں ملتے۔
اس بیان کے خلاف انتخابی کمیشن کی جانب سے کیا اور کتنی کارروائی ہوگی یہ وقت بتائے گا مگر نتیش کمار کو بلاتاخیر کارروائی سے کون روک رہا ہے؟ کیا اُن کی پارٹی اور لیڈروں نیز اُمیدواروں نے اب سے پہلے کبھی ایسا بیان دیا ہے؟ جے ڈی یو کے سب سے بلند قامت لیڈر نتیش کمار کے بعض اقدامات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے بلکہ کیا گیا ہے مگر اُنہوں نے کبھی رائے دہندگان کو روکنے یا طاقت کے ذریعہ اُن کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی بات نہیں کی۔ یہ نتیش کا انداز فکر و عمل نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر یہ ہورہا ہے تو کیا یہ بھی نتیش کو کمزور کرنے کی ایک ترکیب ہے؟ للن سنگھ نے اسی ایک بیان پر اکتفا نہیں کیا۔ اُنہوں نے مکامہ حلقہ اسمبلی کےجے ڈی یو اُمیدوار اننت سنگھ کو کلین چٹ دینے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا ذکر کرتے ہوئے صرف اننت نہیں بلکہ اننت بابو کہہ کر بڑی عزت دی جبکہ وہ دُلار چند یادو کے قتل کے الزام میں گرفتار کئے گئے ہیں ۔
للن سنگھ کے طرز عمل اور بیانات پر نتیش کمار خاموش رہے تو اُنہی کی شبیہ خراب ہوگی جنہیں ’’سوشاسن بابو‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب نتیش بدعنوانی اور جرائم سے پاک اپنے دورِ اقتدار کا ذکر کرتے ہیں تو گویا خود کو اس لقب کا صحیح معنوں میں حقدار باور کراتے ہیں ۔ کیا ’’سوشاسن ‘‘پر یقین رکھنے والا ایک سینئر، جہاندیدہ اور مشاق سیاستداں جو ۹ ؍ مرتبہ وزیر اعلیٰ کا حلف لے چکا ہو، اپنے ہی معتمد کی گرفت نہیں کریگا جس کے بارے میں اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ بی جے پی کے اشاروں پر کام کررہا ہے تو کیا نتیش اُسے برخاست نہیں کرسکتے؟
نتیش نےریاستی و قومی سیاست کے بے شمار اُتار چڑھاؤ دیکھے ہیں مگر جو کچھ اس وقت ہورہا ہے وہ پہلے نہیں ہوا تھا۔ اُن کی پارٹی ٹوٹنے کے آثار نمایاں ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ جو کچھ انہوں نے بنایا وہ بکھر جائے تب وہ حرکت میں آئیں ۔