• Tue, 04 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار کے مسلمانوں کا سیاسی مستقبل

Updated: November 04, 2025, 1:52 PM IST | Sohail Waheed | mumbai

بہار میں مسلم سیاست اس بار ذرا کچھ زیادہ ہی بکھری سی ہے۔۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے حساب سے بہار میں مسلم آبادی ۱۶ء۸۷؍ فیصد ہے۔ یعنی مجموعی ۱۰ء۴۱؍کروڑ کی آبادی میں ۱ء۷۶؍کروڑ مسلمان ہیں۔ جب عبدالغفور وزیرِ اعلیٰ بنے تھے تو وہاں مسلم آبادی قریب ۱۱ء۲۱؍ فیصد تھی۔

INN
آئی این این
بہار میں  بہار شریف ہی وہ جگہ ہے جہاں  بھائی مذہب کے مقلدین نے دہلی میں  لوٹس ٹیمپل کے بعد اپنی دوسری شاندار عبادت گاہ تعمیر کرائی ہے۔ وہیں  پر منیر شریف بھی ہے جہاں  مخدوم یحییٰ منیری اور مخدوم شاہ دولت کی درگاہیں  ہیں ۔ بہار میں  پھلواری شریف بھی ہے جو خانقاہ مجیبیہ کیلئے مشہور ہے، بھاگلپور کی خانقاہِ شہبازیہ بھی شہرت میں  کم نہیں  ہے۔ ساسارام بھی ہے جہاں  شیر شاہ سوری کا مقبرہ ہے، وہی شیرشاہ سوری جس نے ہندوستان میں  سب سے پہلے آراضی اصلاحات شروع کئے اور جی ٹی روڈ بنوائی۔ پٹنہ سے مونگیر تک قریب ڈیڑھ سو میل والے علاقے کو تاریخی اعتبار سے علم و ادب کا خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ’عمارت شرعیہ بہار، اُدیشہ اور جھارکھنڈ‘ پٹنہ میں  ہی ہے۔ ترقیاتی معاملات، جغرافیائی تنوع اور وافر قدرتی آبیاری ہی بہار کا مسئلہ بن گئی، اس سے پیدا حالات نے روزگار کے وسائل کم کر دئیےاور لوگ ہجرت کرکے پنجاب، مہاراشٹر، گجرات، دہلی پہنچے اور وہاں  کی علاقائی عصبیت کے شکار ہوئے۔ لیکن آئی اے ایس افسر بن کر بھی دوسرے صوبوں  میں  خوب پہنچے، ۲۰۲۴ء تک ۵۵۴۲؍  آئی اے ایس افسروں   میں  ۵۰۰؍ سے زیادہ بہار کے تھے۔ قریب ہر دسواں  آئی اے ایس افسر بہاری ہے۔ عامر سبحانی نے ۱۹۸۷ء  میں  آئی اے ایس ٹاپ کیا، اسی کے بعد بہار میں  آئی اے ایس بننے کی ہوڑ سی لگ گئی ۔ بہار ہی وہ صوبہ ہے جہاں  وزیرِ اعلیٰ کی کرسی پر عبدالغفور قریب دو سال تک فائز رہے۔ اس کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب رام ولاس پاسوان بہار میں  مسلم وزیرِ اعلیٰ بنانےکیلئے اڑ گئے، بہت دن تک یہ سب چلا لیکن ان کی نہیں  چلی۔ جے پی تحریک سے نکلے پاسوان کے سیکولر ساتھیوں  نے ہی ن کا مطالبہ منظور نہیں  کیا۔ اب پاسوان کے بیٹے کے ہاتھ میں  ان کی لوک جن شکتی پارٹی ہے جس نے ۲۹؍ سیٹوں  کے لیے اپنے امیدواروں  کا اعلان کر دیا ہے جن میں  صرف ایک مسلمان ہے۔
 
بہار میں  مسلم سیاست اس بار ذرا کچھ زیادہ ہی بکھری سی ہے۔۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے حساب سے بہار میں  مسلم آبادی ۱۶ء۸۷؍ فیصد ہے۔ یعنی مجموعی ۱۰ء۴۱؍کروڑ کی آبادی میں  ۱ء۷۶؍کروڑ مسلمان ہیں ۔ جب عبدالغفور وزیرِ اعلیٰ بنے تھے تو وہاں  مسلم آبادی قریب ۱۱ء۲۱؍  فیصد تھی۔ بہار میں  عبدالقیوم انصاری، سردار لطیف الرحمان انصاری اور عاصم بہاری جیسے رہنما پیدا ہوئے ہیں  جنہوں  نے پسماندہ برادریوں  کی فلاح کیلئے اپنی بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ قیوم انصاری نے مومن کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے مسلم لیگ سے لوہا لیا اور پاکستان کے قیام کی سخت مخالفت ہی نہیں  کی، غریب اور پچھڑے مسلمانوں  کو ادھر جانے سے روک دیا۔
حیدرآباد کی آل انڈیا اتحاد المسلمین والے اسدالدین اویسی کو بہار راس آتا ہے۔ بہار کا حیدرآباد سے رشتۂ خاص رہا ہے،خان بہادر خدا بخش نظام حیدرآباد کے چیف جسٹس رہے۔ بعد میں  پٹنہ میں  خدا بخش کتب خانہ قائم کیا جو اپنے نادر مخطوطوں  کی بدولت دنیا بھر میں  مشہور ہے۔ بہار کے ہی سید علی امام بھی حیدرآباد میں  بیرسٹر رہے۔ بہار کے سرحدی علاقوں  میں  اویسی کی پارٹی کو پچھلے الیکشن میں  پانچ سیٹیں  ملی تھیں ۔ تب مجلس بی ایس پی اور لوک سمتا پارٹی کے ساتھ ملکر لڑی تھی۔ بی ایس پی کی ایک سیٹ نکالی تھی، مسلمان شخص نے۔ اس بار مجلس نے دو ہندوؤں  کو بھی ٹکٹ دیا ہے۔ لالو یادو والے قومی جنتا دل سے مجلس کے لیڈروں  نے بہت بار منت کی، پھر مظاہرہ کیا، پھر دھمکی بھی دی، لیکن کچھ حاصل نہیں  ہوا تو تنِ تنہا لڑنے کا فیصلہ کیا۔
بہار کے سیمانچل کے کشن گنج  میں  ۶۸؍فیصد آبادی مسلم ہے اور وہاں  نیتی آیوگ  کے ۲۰۲۱ء کے اعداد کے مطابق غریبی ۶۴ء۷۵؍  فیصد ہے۔ مسلمان غربت کے زیادہ شکار ہیں  تو مان لیا جائے کہ آٹھ دس فیصد کو چھوڑ کر باقی سارے مسلمان غریب ہیں ۔ وہاں  شرح خواندگی ۵۷؍ فیصد ہے۔ ارریہ میں  مسلم آبادی ۴۲ء۹۵؍ فیصد ہے تو غریبی ۶۴؍فیصد تک ہے۔ یعنی یہاں  سارے کے سارے مسلمان غربت کے مارے ہیں  اور ان کے ہمسایہ غیر مسلم جتنے ہی غریب ہیں  اور شرح خواندگی ۵۳؍ ہے۔ پورنیا  میں  ۳۸ء۴۶؍ فیصد مسلم ہیں  تو غریبی ۵۰ء۷۰؍فیصد اور شرح خواندگی ۵۸ء۲۳؍ فیصد ہے۔ کٹیہار  میں  ۲۲ء۰۹؍  فیصد مسلم آبادی ہے، اس ضلع کو ملک میں  سب سے زیادہ غربت کا شکار بتایا جاتا ہے۔ بہار کاشرح خطۂ افلاس ۳۳ء۷۶؍  فیصد ہے اور شرح خواندگی ۷۴ء۰۳؍  فیصد ہے۔ حیدرآباد کے مسلمان بہار سے بہتر ہوں ، ایسا نہیں  ہے، وہاں  ۷۰؍  فیصد مسلمانوں  کی ماہانہ آمدنی ۱۵۰۰۰؍ روپے سے کم ہے، شاید یہی مماثلت انہیں  بہار لاتی ہے؟
’کجرا محبت والا…‘ جیسے بیحد مقبول نغمے لکھنے والے شمس الہدیٰ، ایس ایچ بہاری بہار کے تھے۔ مولانا مظہر الحق اور منت اللہ رحمانی والے بہار میں  ان دنوں  جو الیکشن ہو رہا ہے وہ دو وجہوں  سے خاص ہے۔ پہلی بات کہ نتیش کمار نے جو ذات سروے کرایا تھا، جے ڈی یو نے تو مانا، اپنے ۱۰۱؍ امیدواروں   میں  ۷۹؍ پسماندہ ذات کے لوگوں  کو ٹکٹ دئیے، لیکن بی جے پی نے نہیں  مانا، بی جے پی  نے ۱۰۱؍میں  ۴۹؍ٹکٹ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں  کو دئیے۔ جبکہ ان کی آبادی ۱۵؍ فیصد تھی۔مجموعی طور پر این ڈی اے نے ۳۵؍فیصد امیدوار اعلیٰ ذات کو دئیے، جن میں  بھومہار زیادہ ہیں  اور ۱۰؍ کروڑ سے زیادہ مالی حیثیت والے امیدوار بہار میں  صرف بھومہار ہیں ۔ سرکار لالو یادو کی رہی ہو یا نتیش کمار کی، ’جنگل راج‘ کی اصطلاح کو مشہور کرنے میں  اسی ذات کے مافیا سرِ فہرست رہے ہیں ۔ انڈیا اتحادمیں  سب سے زیادہ گڑبڑ نظر آ رہی ہے،۲۴۳؍ سیٹوں  والے الیکشن میں  اس  کے ۲۵۴؍ امیدواروں  نے پرچۂ نامزدگی داخل کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ لڑائی آپس میں  بھی ہے۔ قومی جنتا دل نے ۱۹؍ مسلم امیدوار میدان میں  اتارے ہیں ۔
دوسری، بہار اسمبلی کا یہ پہلا الیکشن ہے جس میں  سب سے زیادہ کنفیوز مسلمان ہیں ۔ سیکولر پارٹیاں  جب مسلمانوں  کا نام لینا مناسب نہیں  سمجھ رہی ہیں  تو پرشانت کشور نے جارحانہ انداز میں  مسلمانوں  سے کہا کہ وہ کندھا لگا دیں  تو ہماری لڑائی آسان ہو جائیگی۔ نہیں  لگائیں  گے تو شکایت بھی نہیں  ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ۱۸؍فیصد آبادی کے حساب سے بہار میں ۴۰؍ایم ایل اے ہونے چاہئے ، ہیں  صرف۱۹؍اسی طرح بہارمیں  ۱۶۵۰؍مسلم مکھیا ہونے چاہیے، ہیں ۱۲۰۰؍ سے کم،۲۷۵۰۰؍وارڈ ممبر ہونا چاہیے، ہیں  ۱۱۰۰۰؍  سے کم۔ اسکا ذمہ دار وہ مسلمانوں  کو ٹھہراتے ہیں ۔ بہاراسمبلی میں  اب تک ۳۴۹؍مسلم ممبران ہوئے ہیں  ، سب سے زیادہ ۱۹۸۵ء میں  ۳۵؍ اور ۲۰۰۰؍ میں  ۲۹؍ گزشتہ اسمبلی میں  ۱۹؍ تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK