Inquilab Logo Happiest Places to Work

لارڈ میگھناد دیسائی بھلائے نہیں جاسکتے!

Updated: August 02, 2025, 1:32 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

منگل، ۲۹؍ جولائی کو ایک ایسے ماہر معاشیات، معلم اور مصنف نے داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا جو ہندوستان میں بھی اُتنا ہی مقبول تھا جتنا برطانیہ میں ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 منگل، ۲۹؍ جولائی کو ایک ایسے ماہر معاشیات، معلم اور مصنف نے داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا جو ہندوستان میں  بھی اُتنا ہی مقبول تھا جتنا برطانیہ میں ۔ ہرچند کہ وہ برطانوی سیاست سے پوری فعالیت کے ساتھ وابستہ رہے مگر اِدھر چند برسوں  سے ہندوستان ہی اُن کا مستقر تھا۔ گروگرام (ہریانہ) کے ایک اسپتال میں  اُنہوں  نے آخری سانس لی۔ وہ عمر کی ۸۵؍ بہاریں  دیکھ چکے تھے اور ان میں  کم و بیش ۶۰؍ برس ایسے گزرے جب وہ اپنے علم و فضل اور فہم و دانش سے اپنے شاگردوں  ہی کو نہیں  بلکہ اپنے مضامین اور کتابوں  کے ذریعہ اپنے قارئین کو بھی فیضیاب کرتے رہے۔ ۱۹۴۰ء میں  وڈودرہ (سابقہ بڑودہ) میں  پیدا ہونے والے میگھناد دیسائی نے بڑی پُرجوش زندگی گزاری۔ ممبئی کے روئیا کالج سے معاشیات میں  ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں  نے ممبئی یونیورسٹی سے معاشیات ہی میں  ماسٹرس کیا اور پھر پینی سلوانیہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند پائی۔ پی ایچ ڈی کیلئے اُنہیں  جس شخصیت کی رہنمائی حاصل تھی اُس کے تعلق سے یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ نوبیل انعام یافتہ (لارنس کلین) تھے۔
 میگھناد دیسائی کا برطانیہ کی لیبر پارٹی سے گہرا تعلق رہا اور اسی پارٹی کے رکن کی حیثیت سے ہاؤس آف لارڈس سے وابستگی کے سبب ’’لارڈ‘‘ اُن کے نام کا حصہ بن گیا۔ وہ لیبر پارٹی کے رکن رہے اور چیئرمین بھی مگر پھر اس سے علاحدہ ہوگئے۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے اُن کے شاگرد آج بھی اُنہیں  نہ صرف یاد کرتے ہیں  بلکہ اُن کے علم و آگہی کی ستائش کرتے ہیں ۔ اُن کے ہمعصر ماہرین معاشیات بھی اُنہیں  قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ ایک ہندوستانی کا اس طرح عالمی سطح پر احترام کی نگاہوں  سے دیکھا جانا کم اہم بات نہیں ۔ 
 میگھناد دیسائی عالمی معاشیات پر گہری نگاہ رکھنے والے ماہرین میں  شمار کئے جاتے تھے۔ معاشیات کے موضوع پر متعدد کتابیں  لکھ کر اُنہوں  نے اپنا لوہا منوایا۔ اُن کی سب سےبڑی خوبی اپنی بات صدق دلی سے کہہ دینے کی وہ ادا تھی جسے اختلاف کا خوف تھا نہ ہی مسترد کئے جانے کا ڈر۔ ماہر معاشیات سرجیت بھلاّ نے اُن پر تعزیتی مضمون لکھتے ہوئے بڑی عمدہ بات کہی ہے کہ ’’جب مَیں  چھوٹا تھا اور کوئی ارتھی گزرتی تو اکثر اُس کے ساتھ ایک بینڈ (باجا) ہوا کرتا تھا۔ میں  نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ باجا اس لئے بجایا جاتا ہے کہ جو شخص آنجہانی ہوگیا اُس نے اپنی زندگی نہایت عمدگی سے گزاری۔‘‘ بقول سرجیت بھلا ّ، میگھناد نے اپنی زندگی دانشورانہ ایمانداری کے ساتھ بسر کی ہے ۔‘‘  
 اس میں  شک نہیں  کہ لارڈ میگھناد کے بعض نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے بلکہ کیا گیا اور پوری شدت کے ساتھ کیا گیا۔ آئندہ بھی کیا جاتا رہے گا مگر اُن کی دانشورانہ صلاحیتوں  سے انکار ممکن نہیں ۔ ہائی پروفائل گورنروں  کی ریزرو بینک آف انڈیا سے علاحدگی ہو یا آر بی آئی کے محفوظ اثاثہ پر حکومت کی نگاہ یا آر بی آئی سے پیسہ لینے کا عمل، وہ مودی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور اس میں  نہ تو مصلحت کا شکار ہوئے نہ ہی جانبداری کو قریب آنے دیا۔ کم لوگ جانتے ہیں  کہ معاشیات کا یہ ماہر سنیما بالخصوص بالی ووڈ کا بھی شائق تھا۔ اُن کی بعض تصانیف  ہندی فلموں  پر ہیں ۔ ’’نہرو کا ہیرو دلیپ کمار‘‘ اور ’’پاکیزہ‘‘ایسی ہی کتابیں  ہیں  ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK