Inquilab Logo Happiest Places to Work

فلوریڈا، امریکہ: آٹو پائلٹ حادثے میں ٹیسلا ذمہ دار قرار، متاثرین کو ۲۴۳؍ ملین ڈالر ادا کرنے کا حکم

Updated: August 02, 2025, 8:02 PM IST | Washington

مدعی کے وکیل بریٹ شریبر نے دلیل دی کہ ٹیسلا نے جان بوجھ کر خودکار نظام کو کنٹرول شدہ شاہراہوں کے باہر استعمال کرنے کی اجازت دی اور صارفین کو گمراہ کیا کہ خودکار نظام انسانی ڈرائیوروں سے زیادہ محفوظ ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

امریکی ارب پتی ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا کو فلوریڈا میں خودکار نظام (آٹو پائلٹ) کی وجہ سے ہوئے ایک جان لیوا حادثے سے جڑے مقدمے میں جزوی طور پر ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ فیصلہ سنانے والی جیوری نے کمپنی کو متاثرین کو ۲۴۳؍ ملین ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے جب ٹیسلا کے جدید ڈرائیور اسسٹنس سسٹمز (اے ڈی اے ایس)، جس میں اس کا آٹو پائلٹ اور مکمل سیلف ڈرائیونگ نظام شامل ہے، ایک حادثہ کے مقدمے کے مرکز میں رہے ہیں۔

یہ حادثہ اپریل ۲۰۱۹ء میں کی لارگو میں پیش آیا تھا۔ جارج میک گی، اپنی ٹیسلا ماڈل ایس کو خودکار نظام پر چلا رہے تھے۔ جب انہوں نے اپنا فون لینے کیلئے نیچے دیکھا تو گاڑی نے ایک چوراہے پر رکنے کے نشان کو نظر انداز کردیا اور پاس کھڑی ایک شیورولے ٹاہو سے ٹکرا گئی۔ گاڑی کے ساتھ ۲۲ سالہ نائبل بیناویڈیس لیون اور اس کا بوائے فرینڈ ڈلن انگولو کھڑے تھے۔ اس حادثہ میں بیناویڈیس ہلاک ہو گئی اور انگولو کو شدید چوٹیں آئیں۔

جیوری نے ٹیسلا کو اس حادثے میں ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے متاثرین کو ۱۲۹ ملین ڈالر کا معاوضہ اور ۲۰۰ ملین ڈالر کا تعزیری جرمانہ دینے کا حکم دیا ہے حالانکہ حادثہ کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے ٹیسلا صرف معاوضے کی رقم کا ۳۳ فیصد ادا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ فلوریڈا کے قانون کے تحت تعزیری جرمانے بھی محدود ہوں گے۔

یہ بھی پڑھئے: ایلون مسک کا منفرد ریستوراں ’ٹیسلا ڈائنر‘، ’ماضی اور مستقبل‘ کا حسین امتزاج

مدعی کے وکیل بریٹ شریبر نے دلیل دی کہ ٹیسلا نے جان بوجھ کر خودکار نظام کو کنٹرول شدہ شاہراہوں کے باہر استعمال کرنے کی اجازت دی اور ایلون مسک کے اس دعوے کے ساتھ صارفین کو گمراہ کیا کہ خودکار نظام انسانی ڈرائیوروں سے زیادہ محفوظ ہے۔ شریبر نے کہا کہ ”ٹیسلا کے جھوٹ نے ہماری سڑکوں کو ان کی ناقص ٹیکنالوجی کیلئے تجربہ گاہ بنا دیا۔“

ٹیسلا نے اصرار کیا کہ یہ حادثہ مکمل طور پر ڈرائیور کی لاپرواہی کی وجہ سے ہوا تھا۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ میک گی تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہے تھے اور انہوں نے ایکسیلیریٹر دبا کر خودکار نظام کو غیر فعال کر دیا تھا۔ ایک بیان میں، ٹیسلا نے کہا: ”آج کا فیصلہ غلط ہے… یہ کبھی بھی خودکار نظام کے بارے میں نہیں تھا؛ مدعی کے وکلاء کی طرف سے ایک من گھڑت کہانی پیش کی گئی ہے جو گاڑی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جب کہ ڈرائیور نے خود ذمہ داری قبول کی ہے۔“ کمپنی نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

یہ بھی پڑھئے: عوامی تنازع کے باوجود مسک نے ٹرمپ کی رپبلکن پارٹی کو ۱۵؍ ملین ڈالرکا عطیہ دیا

اس مقدمہ میں میک گی کی اپنی گواہی اہم ثابت ہوئی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ”میرا خیال تھا کہ اگر میں ناکام ہو جاؤں یا کوئی چیز نظر انداز کر دوں تو یہ میری مدد کرے گا… مجھے واقعی ایسا لگتا ہے کہ اس نے مجھے ناکام کیا۔“ مدعی نے ان کے الفاظ اور ٹیسلا کی مارکیٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ کمپنی نے ٹیکنالوجی سے غیر حقیقی توقعات پیدا کیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK