• Sat, 27 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

میک اِن انڈیا، آتم نربھر اور سودیشی

Updated: September 23, 2025, 2:35 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اتوار کو قوم کے نام خطاب میں وزیر اعظم نے جی ایس ٹی میں کی گئی اصلاحات پر روشنی ڈالنے، قیمتیں کم ہونے کی خوش خبری دینے اور ’’جی ایس ٹی بچت اُتسو‘‘ منانے کے مشورہ کے ساتھ ایک اہم بات اور کہی۔ وہ یہ تھی کہ ملک کے شہری غیر ملکی اشیاء پر انحصار ترک کرکے سودیشی کو روزمرہ کا شعار بنالیں ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اتوار کو قوم کے نام خطاب میں  وزیر اعظم  نے جی ایس ٹی میں  کی گئی اصلاحات پر روشنی ڈالنے، قیمتیں  کم ہونے کی خوش خبری دینے اور ’’جی ایس ٹی بچت اُتسو‘‘ منانے کے مشورہ کے ساتھ ایک اہم بات اور کہی۔ وہ یہ تھی کہ ملک کے شہری غیر ملکی اشیاء پر انحصار ترک کرکے سودیشی کو روزمرہ کا شعار بنالیں ۔
 لاشبہ ’’سودیشی‘‘ کا پیغام اچھا ہے۔ وطن عزیز میں  اس کا نہایت طاقتور پس منظر پہلے سے موجود ہے۔ فلسفہ ٔ سودیشی کیا ہے، اس کے تحت کیا کرنا ہوگا، اس کے ذریعہ کیا حاصل کیا جائیگا، ان سوالوں  کا جواب دینے اور قوم کو اس کے مضمرات سے آگاہ کرنے کیلئے مہاتما گاندھی نے ’’نوجیون‘‘ میں  ایک مضمون لکھا جو ۶؍ اپریل ۱۹۳۰ء کے شمارہ میں  شائع ہوا تھا۔اگر اسے سو دیشی کی تحریک کا حرف ِآغاز مان لیا جائے تو گزشتہ ۹۵؍ برس میں  جتنی نسلیں  آئیں ، اُن میں  کسی کیلئے بھی یہ لفظ اجنبی نہیں  تھا، اس کا مفہوم گنجلک نہیں  تھا اور اس کا مقصد محتاجِ تعارف نہیں  تھا۔
 اب حالات مختلف ہیں ۔ اس کے ذریعہ کیا حاصل کرنا ہے یہ بھی مختلف ہوسکتا ہے مگر یہ فلسفہ وہی ہے جس کو گاندھی جی نے برقی (اِلیکٹرانک) میڈیا، عددی (ڈجیٹل) میڈیا اور سماجی (سوشل) میڈیا کے بغیردور دور تک پہنچا دیا تھا۔ اگر وزیر اعظم مودی نے سودیشی کو نئے دور اور نئے ماحول میں  نئے انداز سے دوبارہ زندگی بخشنے کی خواہش کی ہے تو اس پر بحث کی ضرورت ہے کہ کیا فلسفہ اورنظریہ وہی ہے جو گاندھی جی کے دور میں  تھا یا اُس سے مختلف ہے۔ ہم کوشش کرینگے کہ اس پر علاحدہ سے لکھیں ۔ فی الحال یہ دیکھنا ہے کہ کیا وزیراعظم کو سودیشی کی اچانک سوجھی؟ 
 ایسا نہیں  ہے۔ گیارہ سالہ وزارت عظمیٰ کے دوران غالباً پہلی مرتبہ اُنہوں  نے عوام سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ غیر ملکی اشیاء کا استعمال ترک کردیں  مگر آتم نربھر بننے اور سودیشی کو اپنانے کیگونج پہلے بھی سنائی دے چکی ہے۔ ’’میک اِن اِنڈیا‘‘ بھی اسی مفہوم اور مقصد کے تحت کی گئی پہل تھی جس کا مقصد اندرونِ ملک بننے والی اشیاء کا فروغ، مقامی صنعتوں  کا استحکام اور اپنے بل پر  معاشی ترقی سے ہمکنار ہونا تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ وزیر اعظم مودی نے ۲۰۱۴ء میں  اقتدار میں  آنے کے پہلے ہی سال میں  بڑی دھوم دھام سے ’’میک اِن انڈیا‘‘  لانچ کیا تھا۔چو نکہ یہ بہت بڑی اسکیم کے طور پر جاری ہوا تھا اس لئے رِسپانس بھی توقع سے زیادہ ملا۔ ۲۰۱۵ء میں  ہندوستان میں  براہ راست سرمایہ کاری امریکہ اور چین سے زیادہ ہوئی تھی۔ ’’میک اِن انڈیا‘‘  میں  شرکت کے ذریعہ اپنی اپنی ریاستو ں کو فائدہ پہنچانے کے مقصد سے ریاستی حکومتیں  بھی آگے آئیں ۔ انہوں  نے اسے اپنے اپنے انداز میں  اپنایا۔ 
 میک ان انڈیا کا مقصد یہ تھا کہ مینوفیکچرنگ شعبے کی شرح نمو ۱۲؍ تا ۱۴؍ فیصد   ہوجائے، روزگار کے ۱۰۰؍ ملین اضافی مواقع پیدا ہوں  اور ۲۰۲۲ء تک جی ڈی پی میں  اِس شعبے کی حصہ داری ۲۵؍ فیصد ہو۔ ہم نہ تو اِن اہداف تک پہنچے نہ ہی میک ان انڈیا کی سرگرمیاں  آگے بڑھیں ۔ نتیجہ ہے کہ اکثر جانکار اسے مرکز کی ناکام اسکیم کا نام دیتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جن اشیاء کو ملک میں  بننا چاہئے وہ یہاں  بنیں  گی ہی نہیں  اور اگر بنیں  تو بہت مہنگی ہوں  گی تو ہندوستانی صارفین غیر ملکی اشیاء سے انکار کیسے کرینگے، اُن کا تو اس بات کا طویل تجربہ ہے کہ دیسی اشیاء ملتی نہیں  ہیں ، مل جائیں  تو مہنگی ہوتی ہیں  اور اگر  یہ نہیں  تو خالص دیسی نہیں  ہوتیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK