عجب دور ہے۔ جی ڈی پی گنا جارہا ہے۔ سونے چاندی کو تول تول کر روزانہ نئی قیمت طے کی جارہی ہے۔ شیئر مارکیٹ کے حال چال پر نظر جمی ہوئی ہے۔ افراط زر کی شرح اپنا احساس خود کرواتی ہے۔ درآمد اور برآمد موضوع بحث ہیں ۔ دفاعی سودے ہورہے ہیں ۔
عجب دور ہے۔ جی ڈی پی گنا جارہا ہے۔ سونے چاندی کو تول تول کر روزانہ نئی قیمت طے کی جارہی ہے۔ شیئر مارکیٹ کے حال چال پر نظر جمی ہوئی ہے۔ افراط زر کی شرح اپنا احساس خود کرواتی ہے۔ درآمد اور برآمد موضوع بحث ہیں ۔ دفاعی سودے ہورہے ہیں ۔ ’’تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے‘‘ میں تقریب کا معنی تجارتی مذاکرات اور معاہدے لکھ دیجئے کسی کو حیرت نہیں ہوگی۔ معاشی منظرنامہ سے نظر ہٹائیے تب بھی کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی سرا جو ہاتھ لگتا ہے وہ معاشیات ہی سے وابستہ ہوتا ہے مثلاً نت نئے فلائی اووروں کی تعمیر اور دور تک بچھنے والا سڑکوں کا جال۔ اس کا بالواسطہ تعلق معاشیات سے نہ ہو تب بھی بلاواسطہ تعلق تو ہے۔ اسی طرح روز بہ روز سر اُبھارتی عمارتیں ۔ خالی میدان پاٹ دیئے گئے۔ سمندر کی کافی زمین ہتھیا لی گئی۔ کئی علاقوں میں جنگلاتی زمین کا معتدبہ حصہ خاموشی سے شہر سے ملا لیا گیا۔ نئے نئے ہوائی اڈے بن رہے ہیں ۔ بلیٹ ٹرین کا کافی کام ہوچکا ہے۔ ڈبل ڈیکر فلائی اوور تصور سے نقشے پر اور نقشے سے زمین پر اُتر چکے ہیں ۔ سیون اسٹار ہوٹلوں کی طرح سیون اسٹار اسپتال بن چکے ہیں ۔
یہ اور ایسی سب باتیں ، سارے منصوبے اور تمام کامیابیاں ترقی کہلاتی ہیں ۔ روز بہ روز اور جا بہ جا انہی کا تذکرہ اور دعویٰ ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ معاشیات کی اعلیٰ فہم نہیں پیدا کی گئی تو مستقبل میں اس شعبے کے اسرار و رموز جاننے کیلئے بیرونی ملکوں سے ماہرین معاشیات کو بلانا پڑے گا۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ انجینئرنگ اور آرکیٹکچر جیسے فنون میں اعلیٰ ذہن پیدا نہیں ہوئے تو کسی بھی بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹ کیلئے ہمیں بیرونی صلاحیتوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ کوئی یہ بھی سننا نہیں چاہتا کہ اسپتال اپنی عمارتوں سے پہچانے گئے تو یہ کوئی بڑا کمال نہیں ہے، بڑا کمال تب ہوگا جب ہندوستانی اذہان علاج معالجہ اور ادویات (میڈیسن) کے شعبے میں اپنی پیش رفت کو برقرار رکھتے ہوئے سارے عالم پر چھا جائیں ۔
یہ سب تبھی ہوگا جب جی ڈی پی، انفلیشن، شیئر مارکیٹ، تجارتی لین دین، گولڈ اور سلور ریٹس وغیرہ پر نگاہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ اسکولوں کالجوں ، اعلیٰ پیشہ جاتی تعلیمی اداروں ، وہاں مامور اساتذہ، وہاں پڑھنے والے طلبہ اور وہاں دی جانے والی تعلیم کے معیار پر بھی نگاہ رکھی جائے۔ ارباب اقتدار و اختیار کے سروں میں ترقی کا جو سودا سمایا ہوا ہے وہ کسی دوسرے سودے کیلئے جگہ خالی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اسی لئے یہ بھی نہیں سوچا جارہا ہے کہ ترقی کے سارے منصوبے جو اَب اعلیٰ ترقی کے اعلیٰ منصوبوں میں تبدیل ہورہے ہیں ، تب ہی تکمیل کو پہنچیں گے جب ’’انسانی ترقیات‘‘ کو اعلیٰ و ارفع سطح پر پہنچایا جائے گا۔ وہ بھی ترقی ہے اور یہ بھی ترقی ہے مگر اُس ترقی کیلئے یہ ترقی ضروری ہے یعنی مادی ترقی کیلئے تعلیمی ترقی۔ مادی ترقی سے تعلیمی ترقی ہو ضروری نہیں مگر تعلیمی ترقی سے مادی ترقی ہوگی یہ بالکل طے ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی ترقی سے صرف مادی نہیں بلکہ اور بھی کئی طرح کی ترقیات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ہندوستان ایسا ملک کبھی بھی تعلیم کے یک رُْخے مقصد کا علمبردار نہیں رہا۔ اس نے تعلیم کے ہمہ جہتی پہلوؤں کے ذریعہ اپنا مقام بنایا۔ اب ہم خود ہی بھول رہے ہیں کہ اقوام عالم میں ہمارا مقام و مرتبہ کیوں بلند تھا اور اب کیوں نہیں ہے اور کس طرح فوراً سنبھلنا ضروری ہوگیا ہے۔