امدادی کشتیوں کا قافلہ، جسے ’’حنظلہ‘‘ کے بعد ’’صمود‘‘ نام دیا گیا ہے، اسرائیل کی دھمکیوں کے باوجود آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سے قبل کے مشن (حنظلہ)کو، جو جولائی ۲۰۲۵ء کے اواخر میں پہنچنے کو تھا، اسرائیل نے ناکام بنادیا تھا۔
EPAPER
Updated: September 08, 2025, 1:54 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
امدادی کشتیوں کا قافلہ، جسے ’’حنظلہ‘‘ کے بعد ’’صمود‘‘ نام دیا گیا ہے، اسرائیل کی دھمکیوں کے باوجود آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سے قبل کے مشن (حنظلہ)کو، جو جولائی ۲۰۲۵ء کے اواخر میں پہنچنے کو تھا، اسرائیل نے ناکام بنادیا تھا۔
امدادی کشتیوں کا قافلہ، جسے ’’حنظلہ‘‘ کے بعد ’’صمود‘‘ نام دیا گیا ہے، اسرائیل کی دھمکیوں کے باوجود آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سے قبل کے مشن (حنظلہ)کو، جو جولائی ۲۰۲۵ء کے اواخر میں پہنچنے کو تھا، اسرائیل نے ناکام بنادیا تھا۔ ممکن ہے اس قافلے کو بھی منزل مقصود تک نہ پہنچنے دیا جائے مگر جب تک عالمی مزاحمت کی یہ جدوجہد اپنا سفر جاری رکھے گی، تب تک ہر چھوٹے بڑے مرحلے میں حکومت ِ اسرائیل اور اس کی ہمنوا حکومتوں کو ہزیمت سے دوچار کرتی رہے گی۔ جس طرح پوری دُنیا کے انسان دوست عوام اس مشن کی کامیابی کیلئے نیک خواہشات پیش کررہے ہیں ،ہمیں یقین ہے کہ اُسی طرح وہ بحری راستے بھی دُعاگو ہونگے جن سے گزر کر اس قافلہ کو اپنی منزل پر پہنچنا ہے۔
یہ مشن کامیاب ہو یا خدانخواستہ ایک بار پھر ناکام ہوجائے، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بعض کوششوں کو حکمرانوں کا تکبر ناکام بنا دیتا ہے مگر تاریخ اُن کی ستائش کرتی ہے اور اُنہیں بلند مقام عطا کرتی ہے چنانچہ ہمیں یقین ہے کہ عہد حاضر کا مورخ لکھے گا کہ جب عالمی برادری غزہ کی جانب سے مجرمانہ چشم پوشی کا مظاہرہ کررہی تھی تب الگ الگ ملکوں کے بہت سے جیالے یکجا ہوئے اور غزہ کے اسرائیل ساختہ قحط سے لوہا لینے اور مظلوم اہل غزہ کی ہر ممکن مدد کیلئے سر پر کفن باندھ کر نکلے تھے۔ انہوں نے اپنی جان کی پروا کی نہ ہی اپنے اہل خانہ اور اعزاء کے بارے میں سوچا۔ ان میں الگ الگ ملکوں کی سول سوسائٹی کے لوگ تھے، ڈاکٹر تھے، حقوق انسانی کیلئے سرگرم رہنے والے رضاکار تھے، وکلاء اور دیگر پروفیشنل تھے اور کئی مشہور شخصیات تھیں ۔ یہ ایسے جری اور بہادر افراد تھے جو نہ تو مصلحت میں مبتلا ہوئے نہ ہی منافقت میں ،جو سفر کی طوالت سے پریشان ہوئے نہ ہی حکومت ِ اسرائیل کی مخاصمانہ کارروائیوں سے خوفزدہ ہوئے، انہیں علم نہیں کہ غزہ پہنچ پائیں گے یا نہیں ، انہیں یہ علم بھی نہیں کہ اپنے اہل و عیال میں لوَٹ سکیں گے یا نہیں ۔ مکمل غیر یقینی صورت حال میں انہوں نے اپنی کشتیوں کو سمندر اور مقدر کے حوالے کردیا اور رواں دواں ہیں ۔
اتنے بلند مقصد کے ساتھ سفر کرنے والوں کی حفاظت سمندر تو خوشی خوشی کرے گا مگر یہی بات حکومت ِ اسرائیل کے تعلق سے نہیں کہی جاسکتی جو غزہ کو ’’بالکل صاف‘‘ کردینا چاہتی ہے چاہے اس کیلئے مصنوعی قحط پیداکرنا پڑے یا مزید بمباری کے ذریعہ بچی کھچی آبادی کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا پڑے۔ نیتن یاہو کی حکومت کی بدنیتی اس لئے بھی مستحکم ہے کہ اُسے روکنے کی طرح کسی نے نہیں روکا۔ یہ ایسا حکمراں ہے جسے اسرائیلی عوام سخت ناپسند کرتے ہیں مگر بڑی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر اس کی خامو ش تائید کرتی ہیں اس لئے الگ الگ ملکوں کے عوام چاہے جتنے ناراض ہوں ، وہاں کی حکومتیں اسرائیل کو ناراض کرکے اپنے مفادات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتیں ۔ یہ حکومتیں بھوک اور غذا کے درمیان حائل ہوکر امن و انصاف کے وسیع تر مقصد کو شکست دینا چاہتی ہیں مگر ان کی بزدلی دیکھئے کہ جب بھی ضرورت پڑتی ہے امن و انصاف ہی کے پیچھے کھڑی ہوتی ہیں ۔ اقوام متحدہ میں ان کی تقریریں سنئے، محسوس ہوگا کہ ان سے بڑا امن و انصاف کا دلدادہ اور شیدائی کوئی نہیں مگر دُنیا کے مظلوم اور انصاف پسند انہیں خوب جانتے ہیں ۔