۸۵۷؍ افراد کو انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا جبکہ۳۳؍ افراد کو پولیس افسران پر حملے سمیت دیگر جرائم کے الزام میں حراست میں لیا گیا
EPAPER
Updated: September 08, 2025, 3:29 PM IST | Agency | London
۸۵۷؍ افراد کو انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا جبکہ۳۳؍ افراد کو پولیس افسران پر حملے سمیت دیگر جرائم کے الزام میں حراست میں لیا گیا
لندن (ایجنسی):لندن میںفلسطین ایکشن گروپ کے حق میں سنیچر کو زبر دست احتجاج کیا گیا جس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے برطانوی پولیس نے سیکڑوںمظاہرین کو حراست میں لیا ۔برطانوی پولیس نے کہا ہے کہ اس نے سنیچر کو فلسطین ایکشن کی حمایت میں منعقدہ مظاہرے کے دوران تقریباً ۹۰۰؍افراد کو گرفتار کیا ہے، جبکہ حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اس کالعدم گروہ کی حمایت میں مظاہرے نہ کریں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لندن پولیس نے کہا ہے کہ مظاہرے کے دوران ایک کالعدم گروہ کی حمایت کرنے پر۸۵۷؍ افراد کو انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا جبکہ۳۳؍ افراد کو پولیس افسران پر حملے سمیت دیگر جرائم کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔
برطانیہ نے جولائی میں رائل ایئرفورس کے بیس میں گھس کر فوجی طیاروں کو نقصان پہنچائے جانے کے بعد فلسطین ایکشن کو انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت کالعدم قرار دیا تھا، اس سے قبل اسرائیل سے تعلق رکھنے والی دفاعی کمپنیوں کو نشانہ بنانے اور توڑ پھوڑ کے واقعات بھی پیش آئے تھے، یہ گروہ وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کی حکومت پر الزام لگاتا ہے کہ وہ غزہ میں مبینہ اسرائیلی جنگی جرائم میں شریک ہے۔
فلسطین ایکشن کے سیکڑوں حامی بعد ازاں مختلف مظاہروں میں گرفتار کیے گئے جن میں بڑی تعد اد۶۰؍ سال سے زائد عمر کے افراد کی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق لندن پولیس کا کہنا ہے کہ مرکزی لندن میں پارلیمنٹ کے قریب کئے گئےمظاہرے میں ۸۹۰؍ افراد کو گرفتار کیا گیا جو اب تک کسی ایک مظاہرے کے دوران گرفتاریوں کی سب سے بڑی تعداد ہے، ان میں سے۸۵۷؍ افراد کو کالعدم گروہ کی حمایت کرنے پر جبکہ بقیہ کو پولیس افسران پر حملہ کرنے پر حراست میں لیا گیا، کیونکہ پولیس کے مطابق مظاہرہ پرتشدد ہوگیا تھا۔
ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر کلیئر اسمارٹ نے کہا کہ آپریشن کے دوران ہمیں جس تشدد کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک ایسے گروہ کی جانب سے منظم طور پر کیا گیا تھا جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ بدامنی پیدا کرنا تھا۔مظاہرے کے منتظم گروہ ’ڈیفینڈ آور جیوریز‘ نے کہا کہ گرفتار ہونے والوں میں پادری، سابق فوجی اور صحت کے شعبے سے وابستہ کارکن شامل تھے، جن میں بڑی تعداد بزرگوں اور کچھ معذور افراد کی بھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اجتماعی نافرمانیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک پابندی ختم نہیں کی جاتی‘۔
فلسطین ایکشن کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کے برابر رکھا گیا ہے اور اس کی حمایت یا رکنیت جرم قرار پاتی ہے جس کی سزا۱۴؍ سال تک قید ہوسکتی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پابندی کو غیر مناسب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پُرامن مظاہرین کی آزادی اظہارِ رائے محدود ہو گئی ہے۔
دفاعی وزیر جان ہیلی نے کہا کہ یہ سخت اقدام ضروری تھا تاکہ دائیں بازو کے ناقدین کی دہرے معیار پر مبنی پولیسنگ اور انصاف کے نظام کے حوالے سے کی جانے والی شکایات کا ازالہ کیا جاسکے۔انہوں نے اسکائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہم غزہ سے آنے والی تصاویر دیکھتے ہیں تو تقریباً ہر کوئی اس اذیت کو محسوس کرتا ہے اور جو لوگ اپنی تشویش ظاہر کرنا اور احتجاج کرنا چاہتے ہیں، میں ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں، لیکن اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ اسے فلسطین ایکشن جیسے کالعدم گروہ کی حمایت سے جوڑیں‘۔حالیہ ہفتوں میں گرفتار کیے گئے اکثر افراد کو پولیس ضمانت پر رہا کر رہی ہے اور یہ واضح نہیں کہ فی الحال کتنے افراد زیر حراست ہیں۔