Inquilab Logo Happiest Places to Work

شاید آزمائش ختم نہیں ہوئی ہے!

Updated: July 09, 2025, 2:37 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

غزہ میں بے تحاشا بمباری، جو مکانوں ، دکانوں ، اسپتالوں ، اسکولوں اور دیگر جگہوں پر تسلسل کے ساتھ جاری رہی اور جس کی تصویریں اور ویڈیوز پوری دُنیا میں پہنچتے رہے، ایک پورے خطے کو نیست و نابود کرنے کی منظم سازش تھی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 غزہ میں  بے تحاشا بمباری، جو مکانوں ، دکانوں ، اسپتالوں ، اسکولوں  اور دیگر جگہوں  پر تسلسل کے ساتھ جاری رہی اور جس کی تصویریں  اور ویڈیوز پوری دُنیا میں  پہنچتے رہے، ایک پورے خطے کو نیست و نابود کرنے کی منظم سازش تھی۔ ممکن ہے نیتن یاہو نے سوچا ہو کہ غزہ پٹی کو بالکل صاف کردیا جائے یا اس کی بچی کھچی آبادی کو ایک گوشے میں  سمیٹ دیا جائے، اس پٹی میں  یہودی بستیاں  بسائی جائیں  اور اسے ایک تاریخی کارنامہ کے طور پر پیش کرکے اہل اسرائیل کی اتنی حمایت حاصل کرلی جائے کہ وہ ساری ناراضگی ختم کردیں ۔ چونکہ پوری آبادی کو صاف کرنا (نسلی تطہیر) ممکن نہیں  تھا اس لئے اسے ممکن بنانے کی کوشش جاری کی گئی۔ وہ یہ کہ باقیماندہ لوگوں  کو، جو بمباری سے بچ گئے، بھوک سے مار دیا جائے۔ اسلئے غذائی امداد کا راستہ روک دیا گیا۔ اس کا وہی نتیجہ نکلنا تھا جو نکلا۔ غزہ کا غذائی بحران جنگ کے نتیجے میں  ازخود پیدا ہونے والا بحران نہیں  ہے، یہ جان بوجھ کر اُبھارا گیا بحران ہے جس کی وجہ سے محض بھوک نہیں  بلکہ بیماریاں  بھی جنم لے رہی ہیں  اور وہ اہل غزہ جو خود کو بمباری سے محفوظ رکھنے میں  کامیاب ہوئے، بھوک اور دیگر مسائل کے سبب خود کو ناکام ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔ اس کے باوجود انسانی حقوق کا نام نہاد علمبردار امریکہ نے پیر کو نیتن یاہو کا استقبال کیا، جھوٹے منہ بھی یہ نہیں  کہہ سکا کہ پہلے جنگ روکو، غذائی امداد پہنچنے دو، اس کے بعد امریکہ آنا۔
 سارا کھیل ملی بھگت کا ہے ۔ غزہ کو تباہ و تاراج کرنے کا سلسلہ جاری رکھنے اور پھر اہل غزہ کو ترسانے اور تڑپانے کی نیتن یاہو کی مجال نہ ہوتی اگر ۲۰؍ جنوری کو صدر بننے کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے ’’اسٹاپ وار‘‘ جیسے محض دو الفاظ لکھ کر تل ابیب روانہ کردیئے ہوتے مگر ٹرمپ نے یاہو‘ کا حوصلہ بلند کرنے کیلئے اہل غزہ ہی کو یہ کہتے ہوئے دھمکایاکہ غزہ خالی کردیں ۔ ’’الجزیرہ‘‘ میں  فواد ابو سیف کی ایک رپورٹ، جس کا عنوان ’’یہ المیہ نہیں  جنگی حربہ ہے‘‘ میں  کہا گیا ہے کہ موجودہ آبادی کو بھوک سے مار ڈالنے کی سازش تو کی ہی گئی ہے، غزہ کی اُن زمینوں  کو بھی تباہ کردیا گیا ہے جن پر یہاں  کے باشندوں  کی خوراک، روزی روٹی اور معیشت کا انحصار تھا۔ رپورٹ کے مطابق غزہ کی کاشتکاری کی ۹۵؍ فیصد زمین کو برباد اور ناقابل کاشت بنا کر چھوڑا گیا ہے۔ رپورٹ میں  کہا گیا ہے کہ خاموش رہنے یا بے فیض سفارتی کوششیں  کرنے والی عالمی برادری نے غزہ کے غذائی مسئلہ کو ’’انسانی بحران‘‘ قرار دیا جبکہ اسے نسلی تطہیر کے مقصد سے آزمایا جانے والا جنگی حربہ قرار دیا جانا چاہئے تھا۔ لفظوں  کے اس ہیر پھیر کی وجہ سے نیتن یاہو کو اپنی سی کرنے کا موقع ملتا گیا اور عالمی برادری گویا اُن کی مدد کرتی رہی۔ مذکورہ رپورٹ میں  سخت الفاظ میں  کہا گیا ہے کہ مقامی وسائل ختم کرکے اہل غزہ کو مکمل طور پر بیرونی امداد پر اس لئے منحصر رکھا گیا ہے تاکہ اس صورتِ حال کا جنگ بندی کی شرطوں  میں  فائدہ اُٹھایا جائے۔ اس کے پس پشت ایک اور سازش یہ ہے کہ باقیماندہ لوگوں  کا حوصلہ پست کردیا جائے، اُنہیں  رحم و کرم پر رکھا جائے اور اُن سے جو کہا گیا وہ منوا لیا جائے۔
 غزہ کی جو تصویر ہم دیکھتے ہیں  اور جو حقیقی تصویر ہے دونوں  میں  زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم کتنی ہی کوشش کرلیں  اہل غزہ کی اذیت کو نہیں  سمجھ سکتے۔ اکتوبر ۲۳ء سے روزانہ نت نئے مصائب جھیلتے ہوئے یقیناً انہیں  یقین ہوچکا ہوگا کہ دُنیا میں  اُن کا کوئی مددگار نہیں  ہے۔ خدا ہے مگر شاید آزمائش ابھی پوری نہیں  ہوئی ہے۔ 

gaza strip Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK