منریگا کے تحت دیہی علاقوں کے بے روزگار عوام کو ۱۰۰؍ دن کا کام دینے کا سلسلہ ۲۰۰۵ء میں اُس وقت کی یوپی اے حکومت نے جاری کیا تھا جو ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں جاری تھی۔ ۲۰۰۹ء میں ’’نیشنل رو‘رَل اِمپلائمنٹ گیارنٹی اسکیم‘‘ (نریگا) کو مہاتما گاندھی سے موسوم کیا گیا جس کے سبب نریگا، منریگا ہوگیا تھا۔اس
منریگا کے تحت دیہی علاقوں کے بے روزگار عوام کو ۱۰۰؍ دن کا کام دینے کا سلسلہ ۲۰۰۵ء میں اُس وقت کی یوپی اے حکومت نے جاری کیا تھا جو ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں جاری تھی۔ ۲۰۰۹ء میں ’’نیشنل رو‘رَل اِمپلائمنٹ گیارنٹی اسکیم‘‘ (نریگا) کو مہاتما گاندھی سے موسوم کیا گیا جس کے سبب نریگا، منریگا ہوگیا تھا۔اس طرح کم و بیش بیس سال سے یہ اسکیم بجٹ میں تخفیف کے سبب ہچکولے کھانے کے باوجود جاری رہی جس کا مقصد دیہی ہندوستان کو روزگار کا موقع فراہم کرنا اور معاشی سہارا دینا تھا۔ ۲۰۱۴ء میں قائم ہونے والی این ڈی اے کی حکومت، جس کی قیادت موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے سنبھالی تھی، اس اسکیم کے خلاف تھی۔ اس کا یہ کہتے ہوئے مذاق اُڑایا گیا تھا کہ ہم اس اسکیم کو سابقہ حکومت کی ناکامی کی یادگار کے طور پر جاری رکھیں گے۔ اسکیم کو بدلنے کیلئے درکار جمہوری طاقت ہونے کے باوجود اسے بند نہ کرنے کے ’’خوبصورت‘‘ بہانے سے قطع نظر اسے جاری رکھنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ این ڈی اے کی متعدد ریاستی حکومتیں بھی نہیں چاہتی تھیں کہ اسے بند کیا جائے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ این ڈی اے حکومت نے کبھی اس کے سودمند ہونے کا اعتراف نہیں کیا مگر اسے بند بھی نہیں کرسکی جو اس کی افادیت کا ثبوت تھا۔ اب نہ صرف اس کا نام بدلا جارہا ہے بلکہ اس کے تحت دیہی مزدوروں کو ملنے والا روزگار بھی محدود کیا جارہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ نئے بل میں ۱۰۰؍ کے بجائے ۱۲۵؍ دن کا کام فراہم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے مگر عائد شدہ نئی شرطوں کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ بل، جو گزشتہ روز (منگل، ۱۶؍ دسمبر ۲۵ء کو) لوک سبھا میں پیش کیا گیا، اپنی موجودہ شکل میں منظور ہو گیا تو یہ بدبختانہ عمل ہوگا اور اس میں موجود روزگار کی ضمانت عدم ضمانت میں تبدیل ہوجائیگی اس لئے بھی کہ اب تک اس کے بجٹ کا ۹۰؍ فیصد حصہ مرکز سے آتا تھا مگر اب بجٹ کا ۵۰۔۶۰؍ فیصد حصہ ریاستوں کے سر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ریاستوں کے ذرائع آمدنی پہلے ہی محدود ہیں ۔ جی ایس ٹی میں اُن کی حصہ داری اور اُس کے برابر سرمائے کی فراہمی کیلئے پاپڑ بیلنے حتیٰ کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ اگر ریاستوں کی مالی حالت اسی طرح خراب رہی تو وہ اس کو پس پشت ڈال سکتی ہیں ۔ کیا مرکز نے ریاستوں سے، سب نہیں تو جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے، پوچھا کہ نئے بل پر ان کی کیا رائے ہے؟ ان باتوں سے منریگا کا، جو اَب ’’وی بی، جی رام جی‘‘ کہلائیگا، مقصد ہی فوت ہوجائیگا اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے اور یہ سوال مرکزی حکومت سے پوچھا جانا چاہئے کہ کیا اس کا منشاء ایک ایسی اسکیم کو، جس سے وہ ابتداء ہی سے متفق نہیں ہے، بے اثر کرنا ہے؟
دیہی علاقوں کو معاشی سہارا دینے کے اس قانون سے مہاتما گاندھی کا نام ہٹانا بھی افسوسناک ہے جسے رام کے نام سے بدلا گیا ہے جبکہ مرکزاپنی کسی بھی اسکیم کو رام سے موسوم کردے اُسے کون اور کیوں روکے گا؟ اسے مکمل آزادی ہے کہ آئندہ کم از کم ایک درجن اسکیموں کو رام کے نام کردے جنہیں علامہ اقبال نے ’’امام ِہند‘‘ قرار دیا تھا (ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز =اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ِہند) اعتراض رام کا نام جوڑنے پر نہیں ، مہاتما گاندھی کا نام ہٹانے پر ہے۔