• Fri, 14 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نہرو : ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما

Updated: November 14, 2025, 1:54 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

سچائی کی جیت اسی کو کہتے ہیں۔ نہرو کو گزشتہ ایک دہائی کے دوران کافی بُرا بھلا کہا گیا، بُرا بھلا کہنے کا کوئی موقع گنوایا نہیں گیا مگر جاننے والے جانتے ہیں اور ’’نہرو مخالف دور‘‘ میں بھی ماننے والے مانتے ہیں کہ اولین وزیر اعظم کے طور پر پنڈت نہرو کے اقدامات ایسا سچ ہے کہ اسے نہ تو جھٹلایا جاسکتا ہے نہ ہی اس پر شبہ کیا جاسکتا ہے۔

INN
آئی این این
سچائی کی جیت اسی کو کہتے ہیں ۔ نہرو کو گزشتہ ایک دہائی کے دوران کافی بُرا بھلا کہا گیا، بُرا بھلا کہنے کا کوئی موقع گنوایا نہیں  گیا مگر جاننے والے جانتے ہیں  اور ’’نہرو مخالف دور‘‘ میں  بھی ماننے والے مانتے ہیں  کہ اولین وزیر اعظم کے طور پر پنڈت نہرو کے اقدامات ایسا سچ ہے کہ اسے نہ تو جھٹلایا جاسکتا ہے نہ ہی اس پر شبہ کیا جاسکتا ہے۔یہ پتھر پر کندہ ایسی تحریر ہے جو سرد و گرم زمانہ سے دھندلی نہیں  ہوئی۔ ایک نو آزاد ملک کے محدود تر وسائل کے باوجود نہرو کے نتیجہ خیز ہمہ جہتی اقدامات نے ملک کو ایسے شاندار ادارے دیئے کہ جن کو نظر انداز کرنا اپنے بخل کو جگ ظاہر کرنا ہے۔ نہرو ۱۷؍ سال وزیر اعظم رہے۔ بلاشبہ یہ عرصہ طویل ہے جسے نہرو نے اپنی فعالیت اور بصیرت سے ان معنوں  میں  طویل تر بنادیا کہ اتنے سارے اور اتنے ٹھوس کاموں  کا محض ۱۷؍ سال میں  مکمل ہوجانا ممکن نہ تھا۔ آج بھی یہ کرشماتی لگتا ہے۔ اگر یہ کرشمہ تھا تو بلاشبہ نہرو کا تھا۔
بتانے کی ضرورت نہیں  کہ نہرو نے ایمس قائم کئے، آئی آئی ٹی قائم کئے، آئی آئی ایم قائم کئے، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، ایگریکلچرل یونیورسٹیز، بی اے آر سی، ڈی آر ڈی او، اِسرو اور ایسے ہی کئی دیگر اداروں  کی بنیاد رکھی اور ڈپارٹمنٹ آف انرجی سے لے کر نیشنل کیمیکل لیباریٹری اور نیشنل فزیکل لیباریٹری تک درجنوں  ادارے قائم کئے جن پر آج ملک کو ناز ہے۔ نہرو نے ملک کو سائنسی فکر عطا کی مگر سائنس اور تکنالوجی ہی پر اکتفا نہیں  کیا بلکہ اُن کی ترجیحات میں  تہذیبی و ثقافتی اداروں  کا قیام بھی شامل تھا۔ یاد کیجئے ساہتیہ اکادیمی ۱۹۵۴ء میں  قائم کی جاچکی تھی۔ اسی سال سنگیت ناٹک اکادیمی اور للت کلا اکادیمی (نیشنل اکیڈمی آف آرٹ) کا قیام عمل میں  لایا گیا تھا۔ اس میں  مولانا آزاد کا بھی بڑا کردار رہا۔ 
یہ سب نہرو کی فنون لطیفہ سے دلچسپی اور اُن کے اس ایقان کا نتیجہ تھا کہ فنون لطیفہ کا ملک کی تہذیبی و ثقافتی تروت مندی میں  اہم کردار ہوتا ہے۔ اس طرح نہرو نے ایک کثیر جہتی شخصیت کے طور پر خود کو منوایا اور ہر سنجیدہ فکر انسان، جو قوموں  کی تاریخی و معاشرتی زندگی سے دلچسپی رکھتا ہے، نے اس کا اعتراف کیا خواہ وہ ہندوستانی ہو یا کسی اور ملک کا باشندہ۔ معاشیات کے شعبے میں  بھی ملک کی معاشی ترقی کیلئے پلاننگ کمیشن کے قیام اور پنج سالہ منصوبوں  کو ضروری سمجھنے والے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے جب عنان حکومت سنبھالی تھی، ہندوستان کا جی ڈی پی محض ۲ء۷؍ لاکھ کروڑ روپے تھا یعنی ۲۰؍ بلین ڈالر، مگر، جب نہرو اس دُنیا سے رخصت ہوئے تب ملک کا جی ڈی پی ۵۶ء۴۸؍ بلین ڈالر ہوچکا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں  ایک ڈالر۳ء۳؍ روپے کے برابر تھا۔ ۱۹۶۴ء میں  جب نہرو نے اس دار فانی سے کوچ کیا، ڈالر کے مقابلے میں  روپیہ نے اپنی قدر محض پونے دو روپے کے قریب کھوئی تھی۔ تب ڈالر ۴ء۷۶؍ روپے کے برابر تھا (آج کی حالت مت پوچھئے کہ ایک ڈالرکی قدر کم و بیش ۸۸؍ روپے کے مساوی ہوچکی ہے)۔ 
نہرو کے اقدامات اور خدمات کو آنکتے وقت ملحوظ رہنا چاہئے کہ اُنہیں  ایک ایسے ملک کی قیادت و سیادت کرنی تھی جو ابھی ابھی آزاد ہوا تھا۔ اس کی سمت متعین کرنا، اس کو رفتار دینا، ایک آزاد جمہوریہ کی حیثیت سے اس کی پہچان بنانا، اسے معاشی طور پر مستحکم کرنا اور کثرت میں  وحدت کا نمونہ بنانا تھا۔ نہرو اس میں  غیر معمولی طور پر کامیاب ہوئے خواہ مخالفین اُنہیں  کتنا ہی کوسیں ، کتنا ہی بُرا بھلا کہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK