اس مضمون کا عنوان بن جانے والا یہ کیفی کا مصرعہ ہے جو ۱۹۶۷ء کی فلم ’’نونہال‘‘ کیلئے لکھے گئے گیت کا حصہ ہے۔ مگر اس مضمون میں گیت سے متعلق کچھ نہیں ہے بلکہ نہرو کو ایک ادیب کی حیثیت سے دیکھنے کی ادنیٰ سی کوشش کی گئی ہے، ملاحظہ کریں:
نہرو کی شہرت اور مقبولیت مجاہد آزادی، مدبر ماہر سیاست اور ملک کے اولین وزیر اعظم کی ہے۔ وہ ان تینوں حیثیتوں میں نہ صرف کامیاب ہیں بلکہ اُن کا مرتبہ بلند ہے جس کے گواہ تاریخ کے اوراقہیں ۔ مخالفین کی دشنام طرازیوں سے اُن کا مرتبہ نہ تو متاثر ہوا نہ ہی آئندہ کبھی ہوسکتا ہے مگر، جیسا کہ ہوتا آیا ہے، بعض شخصیتوں کا ایک پہلو، دوسرے پر حاوی ہوجاتا ہے اور اگر متنوع اور پہلودار شخصیت ہے تو چند پہلو کئی دیگر پہلوؤں پر غالب آجاتے ہیں ۔
نہرو کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ اُنہیں جدوجہد آزادی، سیاسی مہارت،بصیرت اور دور اندیشی نیز وزارت ِ عظمیٰ کے دوران انجام دیئے گئے کارہائے نمایاں کے حوالے سے جانا جاتا ہے اور یہ پہلو اِس حد تک حاوی ہوگئے ہیں کہ اُن کے اندر کے ادیب کو وہ شہرت نہیں ملی جس کی وہ مستحق تھی۔ اس ادیب سے ملئے تو لگتا ہے کہ یہ ایک وسیع المطالعہ، وسیع النظر اور دردمند ادیب ہے جس کے قلم سے نکلنے والا ہر لفظ اور جملہ یہ احساس دلاتا ہے کہ خامہ آرائی کرنے والا عالمی اور قومی تاریخ کا شیدا، سماجیات کا ماہر اور مذہب انسانیت پر کامل یقین رکھنے والا تو ہے ہی، اس کی خاکساری بھی درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس خاکساری کا عالم یہ ہے کہ کبھی غلطی سے بھی اپنے قاری کو یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کرتا کہ وہ بحر علم کا غواص ہے اور فکر ونظر کے دُرِ نایاب سے قاری کا دامن بھر دینے کی قدرت رکھتا ہے۔
نہرو کا حافظہ اور قلم دونوں رواں تھے اور افکار و خیالات کی یورش اور قلم کی جنبش ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیتے تھے۔ وہ بڑی سے بڑی بات اور ادق سے ادق مضمون نہایت سادہ اور دلنشین انداز میں بیان کردیتے تھے۔ انگریزی میں لکھتے تھے اور اس زبان پر اُن کی قدرت دیسی زبان یا مادری زبان جیسی تھی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت اُن کے وہ خطوط ہیں جو اُنہوں نے بیٹی اندرا گاندھی کے نام لکھے تھے۔ ان خطوط میں ، جو کتابی شکل میں شائع ہوکر دورِ اشاعت سے لے کر آج تک مقبول ہیں ، نہرو نے اپنی صاحبزادی کو مخاطب ضرور کیا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ اُن کا روئے سخن ملک کے تمام بچوں اور نوعمروں کی جانب ہے۔ بچوں سے اُن کی محبت ویسے بھی محتاجِ تعارف نہیں ہے، ایسے میں عین ممکن ہے کہ لکھتے وقت اُن کے ذہن میں اُس وقت کے ہندوستان کے تمام بچوں کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلیں بھی رہی ہوں ۔ ایک دور اندیش ادیب لکھنے سے پہلے اور لکھنے کے بعد بھی یہی سوچتا ہے۔ اُسے علم ہوتا ہے کہ برسہا برس تک اُس کی تحریریں پڑھی جاتی رہیں گی۔ اندرا کے نام لکھے گئے ان خطوط میں بھی بچوں سے اُن کی محبت جھلکتی ہے۔ وہ اس طرح اُن سے گویا ہوتے ہیں جیسے وہ اُن کے بالکل سامنے بیٹھے ہیں ۔ پہلے ہی خط سے اُن کے انداز تخاطب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’تم مسوری میں ہو اور مَیں الہ آباد میں ، تو اس طرح بات چیت نہیں ہوسکتی جیسے پاس بیٹھے ہوتی تھی، اب یہ ارادہ ہے کہ تمہیں کبھی کبھی، تھوڑے سے لفظوں میں اس دُنیا کی، جس میں ہم تم رہتے ہیں اور اُن بہت سے چھوٹے بڑے ملکوں کی جن سے مل کر یہ اتنی بڑی دُنیا بنی ہے، کچھ باتیں لکھتا رہا کروں گا۔‘‘ آگے لکھتے ہیں : ’’ڈر ہے کہ مَیں خطوں میں تمہیں بہت ہی کم باتیں بتلا سکتا ہوں لیکن مجھے اُمید ہے کہ جو کچھ باتیں بھی تمہیں بتلاؤں گا، وہ تم کو عجیب سی معلوم ہوں گی اور ان سے تمام دُنیا اور اُن دوسرے لوگوں کا دھیان آئیگا جو ہمارے ہی جیسے کسی ملک میں رہتے ہیں اور ہمارے بھائی بہن ہیں ۔‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نہرو، جو خود انسان دوست تھے، نئی نسل کو بھی انسان دوستی سکھانا چاہتے تھے۔
کتاب ’’باپ کے خط بیٹی کے نام‘‘ آج بھی، جبکہ اکیسویں صدی ہے اور تکنالوجی چہار جانب انقلاب برپا کرچکی ہے، اس قابل ہے کہ اسے پڑھا جائے اور صرف بچے نہ پڑھیں بلکہ بڑے بھی وقت نکالیں اور دیکھیں کہ نہرو نے کس طرح اپنے تخیل کی بنیاد پر یہ بتایا ہے کہ یہ دُنیا کیسے بنی، زمین کیسے بنی، سب سے پہلی جاندار چیزیں کون سی تھیں ، جانوروں کی پیدائش کیسے ہوئی، انسان کی پیدائش کیسے ہوئی، شروع زمانے کے انسان کیسے تھے، مختلف نسلیں کیسے بنیں ، تہذیب کیا ہے، برادریاں کیسے بنیں ، وغیرہ۔ ان خطوں میں نہرو کا تصور ہے، تخیل ہے، دل میں اُتر جانے والا اسلوب ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسا لگتا ہے جیسے کہانی سنا رہے ہوں ۔ کہانی بھی ایسی جو کارآمد ہو۔ کیا اس بنیاد پر کہا نہیں جاسکتا کہ نہرو بہت اچھے کہانی نویس بھی تھے، یہ الگ بات کہ اُنہوں نے کہانیاں نہیں لکھیں ؟ مگر یہ بھی کیا کم ہے کہ مضامین میں کہانیوں جیسا لطف پیدا کرنے میں سو فیصد کامیاب ہیں ۔ ضیاء عظیم آبادی نے اپنی کتاب’’پنڈت جواہر لال نہرو‘‘ میں ’’نہرو اور ادب‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر لکھا ہے جس میں درج ہے کہ مشہور امریکی ادیبہ پرل بک (Pearl Buck)کا نہرو کے بارے میں خیال تھا کہ ’’نہرو ایک مصنف کے طور پر دُنیاکے سامنے ہوسکتے تھے کیونکہ ان کا اسلوب ِ بیان منفردہے اور ان کے تخیل کی پرواز اعلیٰ و ارفع تھی۔‘‘اس قول کی صداقت کا اندازہ نہرو کی تحریروں سے ہوتا ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد کےعلمی مرتبہ کی قدردانی بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ نہرو اعلیٰ ظرف انسان تھے جو دوسروں کے علمی کمالات پر رشک کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’مولانا آزاد کے ذہن میں تاریخی حوادث کا تسلسل محفوظ ہے۔ آپ کی زبان سے اچانک علمی حقائق کے دریا بہتے دیکھ کر انسان حیران ہوجاتا ہے۔ آپ کا ذہن واضح اور منطقی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ کے ذہن کی تربیت منطق اور فلسفہ کے رسمی مدرسوں میں ہوئی ہے۔ آپ کا عمومی نظریہ عقلی ہے۔ ان سب کے باوجود آپ میں ایک ایسا انسان ہے جو علم کے پہاڑوں کو نرم و نازک بناکرپیش کرتا ہے۔‘‘
۱۴۔۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی درمیانی شب میں کی گئی تقریر نہرو کے زورِ بیان کی بھرپور غماز ہے۔ اسے عالمی معیار کی ۲۵؍ تقریروں میں شمار کیا جائے تو تعجب نہ ہو۔ حال ہی میں اس کا ایک جملہ نیویارک کے نومنتخب میئر ظہران ممدانی نے اپنے خطاب ِ فتح میں کیا۔ غور کیجئے ظہران کو کسی کا قول نقل کرنا ہی تھا تو اور بھی تقریریں تھیں مگر انہوں نے نہرو ہی کا انتخاب کیا۔ یہ دورِ حاضر میں نہرو کے قلم کا اعتراف ہے کہ اُس دور میں اسپیچ رائٹر تو نہیں رہتے ہوں گے!